اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قران کریم کی سورت المائدہ میں ایمان لانے والوں کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ “ کسی قوم کی دشمنی تمھیں ہر گز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو “ چنانچہ قران کریم میں اکتیس مقامات پر مختلف انداز میں عدل وانصاف قائم کرنے کا ذکر ملتا ہے ۔ حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہر قدم پر اور ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف کرنے کی نہ صرف تاکید فرمائی بلکہ ساری زندگی اس کا عملی نمونے پیش کر کے اپنی امت کو انصاف کرنا سکھایا ۔ حضرت عمر بن خطاب کے بارہ میں بھی روایت ہے کہ آپ نے اپنے حکام کو سختی سے حکم دے رکھا تھا کہ جب کوئی مقدمہ آپ کے سامنے پیش ہو تو معاملہ کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرو ۔ پاکستان جہاں دن رات پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ ۔ لبیک یا رسول اللہ لبیک کے نعرے بلند ہوتے ہیں ۔ انصاف کا خون بھی روز شب بہایا جاتا ہے ۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ایسا ہر سطح پر ہو رہا ہے
حتی کہ انصاف کے لئے قائم کئے جانے ادارے بھی انصاف کا خون کرنے سے نہی ہچکچاتے اوراپنے پر دوسروں کی طرف سے کی جانے والی تنقید پر نادم ہونے کی بجاے بڑی جرات اور ڈھٹائی سے اپنی ڈگر پر قائم رہتے ہیں ۔ حقوق انسانی کی تنظیموں ، اداروں کی رپورٹس اور تبصرے پاکستانی عدالتوں کے اندھیر پن کا پردہ چاک کرتے رہتے ہیں ۔ اس وقت بھی جوڈیشل مجسٹریٹ سے لے کر عدالت عالیہ میں ایسے مقدمات زیر سماعت ہیں جن کی روز کی روئداد نہ تو قرآنی احکام کےمطابق ہے اور نہ ہی احکام نبوی پر پوری اترتی ہے ۔ حکم تو یہ ہے کہ کسی قوم کی دشمنی تمھیں انصاف کرنے میں روکاوٹ نہ بنے ۔ لیکن گوجرانوالہ کی جوڈیشل مجسٹریٹ سدرہ گل نواز کا کل 15 جولائی کا فیصلہ احمدیوں سے دشمنی کا اظہار ہے ۔ ضمانت کے کیس میں مجرم کا جرم یہ تھا کہ اس نے دس محرم کو علاقہ کے لوگوں میں بریانی تقسیم کر کے سماجی خدمت کیوں سر انجام دی ۔ لوگوں کو کھانا کھلانا بھی گویا جرم ٹھہرا ، FIR درج ہوئی ، ملزم منور احمد ورک گرفتار ہوا ۔ منور احمد کو کل ضمانت کے لئے سدرہ گل نواز کی عدالت میں پیش کیا گیا ۔ جرم اتنا بڑا تھا کہ مذکورہ جج نے ضمانت کی درخواست خارج کر دی ۔ کسی قوم سے دشمنی کی اس سے زیادہ متعصب مثال اور کیا ہو گی کہ چاول کی دیگ تقسیم کرنے پر 298/c کی FIR کاٹی جاے اور تف ہے اس منصف پر جس نے کھانے کی تقسیم کو ناقابل ضمانت جرم گردانا ۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے “ جس دن اللہ تعالیٰ کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا اس دن اللہ تعالیٰ سات آدمیوں کو اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے گا ۔” ان سات خوش قسمتوں میں اپ نے سب سے پہلے امام عادل کا نام لیا۔


کیا یہ حدیث پاکستان میں عدل کے ایوانوں میں نہی پڑھائی جاتی ۔ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر ملک کے سر سے سایہ رحمت کیوں اٹھتا چلاجا رہا ہے اور ہمیں بحثیت ملک و قوم پسپائی اور رسوائی کا سامنا کیوں ہے ۔