اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسیف کی ترجمان روزالیا بولین نے کہا ہے کہ غزہ میں اب کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں رہی، نہ ہی کوئی فلسطینی شہری اسرائیلی بمباری سے محفوظ ہے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ "غزہ بچوں کے لیے ایک اجتماعی قبرستان بن چکا ہے”۔انہوں نے بتایا کہ ہر دن بڑی تعداد میں فلسطینی شہید ہو رہے ہیں، اور ان ہلاکتوں میں نہ کوئی وقفہ آ رہا ہے اور نہ ہی کمی۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک 58 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں 17 ہزار بچے شامل ہیں۔ ان میں نومولود بچے بھی شامل ہیں۔روزالیا بولین نے واضح کیا کہ فلسطینیوں کی ہلاکتوں کے جو اعداد و شمار جاری کیے جا رہے ہیں وہ درست اور مصدقہ ہیں، ان پر شک کرنا جھوٹ اور پراپیگنڈے کے زمرے میں آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یونیسیف کی ٹیم خود غزہ میں موجود ہے اور اپنی آنکھوں سے یہ تمام تباہی دیکھ رہی ہے۔انہوں نے شدید زخمی بچوں کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کئی بچوں کے اعضاء ضائع ہو چکے ہیں، کچھ جلنے کے سبب زندگی بھر کے لیے معذور ہو چکے ہیں، اور مناسب علاج نہ ملنے کی وجہ سے زخم مزید بگڑتے جا رہے ہیں۔بولین نے بتایا کہ ہزاروں زخمی بچوں کو نہ تو ہسپتال تک رسائی ہے اور نہ ہی غزہ میں طبی سہولیات موجود ہیں کیونکہ اسرائیلی حملوں میں بیشتر اسپتال تباہ ہو چکے ہیں، اور جو بچے ہیں ان میں بھی دوا اور طبی آلات کی شدید قلت ہے۔انہوں نے کہا کہ غزہ میں اب صرف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی تباہی بھی پھیل چکی ہے۔ تقریباً دس لاکھ بچے شدید ذہنی دباؤ اور صدمے کا شکار ہیں۔ ہر وقت کی بمباری، دھماکے اور اسرائیلی طیاروں کی آوازوں نے بچوں کی نفسیات پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔
سات اقوامِ متحدہ اداروں کے مطابق، ایندھن کی قلت بحرانی سطح تک پہنچ چکی ہے، جبکہ خوراک، پانی اور ادویات کی دستیابی بھی انتہائی خوفناک حد تک کم ہو چکی ہے۔
روزالیا بولین کا پیغام واضح ہے:
"یہ صرف جنگ نہیں، ایک انسانیت سوز بحران ہے۔ غزہ کے بچوں کو فوری عالمی توجہ، مدد اور تحفظ کی ضرورت ہے۔”