لندن (مانیٹرنگ ڈیسک) — برطانوی اخبار میٹرو نے انکشاف کیا ہے کہ برطانوی حکومت نے افغانستان سے تعلق رکھنے والے 33 ہزار افراد کو خاموشی سے برطانیہ منتقل کرنے کا خفیہ منصوبہ تیار کیا ہے۔ ان افراد میں وہ افغان شہری شامل ہیں جنہوں نے ماضی میں برطانوی و مغربی افواج کے ساتھ تعاون کیا تھا، اور اب ان کی جانوں کو طالبان سے شدید خطرات لاحق ہیں۔
اخباری رپورٹ کے مطابق ان افغان شہریوں کی ذاتی معلومات فروری 2022 میں ایک غیر محفوظ ای میل کے ذریعے حادثاتی طور پر لیک ہو گئیں۔ اس ڈیٹا لیک کے نتیجے میں تقریباً 19 ہزار افراد کے کوائف افشا ہو چکے ہیں، جن میں مترجم، عملہ، اور دیگر سیکیورٹی معاونین شامل ہیں۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ معلومات طالبان کے ہاتھ لگ چکی ہیں۔
اپریل 2024 میں "افغان ری اسپاونس پاتھ وے” کے نام سے ایک خفیہ منصوبہ شروع کیا گیا، جس کا مقصد ان افراد کو دوبارہ آباد کرنا ہے۔ یہ منصوبہ اب تک 400 ملین پاؤنڈ نگل چکا ہے، اور مکمل ہونے تک اس کی لاگت 850 ملین پاؤنڈ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق قانونی پیچیدگیاں اور ممکنہ زرِ تلافی کے اخراجات کے باعث اخراجات میں مزید اضافے کا امکان ہے۔
برطانوی وزارت دفاع کو اس سنگین غلطی کا علم ایک سال سے زائد عرصے بعد اگست 2023 میں ہوا، جب یہ معلومات ایک فیس بک گروپ میں شائع ہوئیں۔ ایک سماجی کارکن نے اس وقت کے وزیر برائے مسلح افواج جیمس ہیپی کو مطلع کیا کہ طالبان کے پاس 33 ہزار افراد کی فہرست موجود ہو سکتی ہے، جو براہ راست برطانوی حکومت کی غفلت کے باعث لیک ہوئی۔
معاونین کی جان خطرے میں، شدید ردِعمل
افغان معاونین اور ان کے اہلِ خانہ پہلے ہی خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایک سابق مترجم اور سماجی کارکن رافی ہوتک نے اس صورتحال کو "برطانوی حکومت کی بدترین خیانت” قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ "جنہوں نے برطانیہ کی خاطر قربانیاں دیں، انہیں اب بری طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے۔”
برطانوی وزیر دفاع جون ہیلی نے پارلیمان میں معذرت پیش کرتے ہوئے کہا کہ "یہ سنگین ڈیٹا لیک کبھی نہیں ہونا چاہیے تھا”۔ فی الحال عدالت نے میڈیا اور پارلیمان کو اس منصوبے کی مکمل تفصیلات شائع کرنے سے روک رکھا ہے، کیونکہ اگر یہ معلومات طالبان کے ہاتھ لگیں تو 80 ہزار سے ایک لاکھ افراد کو گرفتاری، اذیت یا موت جیسے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
