۲۲ اپریل ۲۰۲۵ کو کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں ۲۶ سیاحوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا جس کی ذمہ داری مزاحمتی محاز نامی تنظیم نے قبول کی تھی ۔ اب واقعہ کے تین ماہ بعد امریکہ نے مزاحمتی محاز نامی تنظیم کو
غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے ۔ لیکن اس ساتھ اسی پر اکتفا نہی کیا بلکہ امریکہ کے وزیر خارجہ نے مزاحمتی محاز کو لشکر طیبہ کا حصہ قرار دیا ہے ۔ اب لشکر طیبہ پاکستانی تنظیم ہے جس کو اقوام متحدہ دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہے اور پاکستان نے اس کے دفاتر سیل کر دئیے تھے ۔ اب ایک بار پھر لشکر طیبہ کا نام اچھالا جانا پاکستان کو نئے خطرات سے دوچار کر سکتا ہے ۔ بھارت نے مزاحمتی محاذ کو عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دئیے جانے پر دوبارہ سے واویلا شروع کر دینا ہے ۔ بھارتی وزیر خارجہ کا پہلا ردعمل ہی یکطرفہ اور پاکستان دشمنی پر مشتمل ہے ۔ پاکستان کو بھی فوری اپنا ردعمل پیش کرنا چائیے ۔ کیونکہ حکومت پاکستان ہر سال عید قربان کے قریب اخبارات میں بڑے بڑے اشتہار دے کر پاکستان میں موجود کلعدم تنظیموں کی فہرستیں شائع کیا کرتی ہے جو دنیا کے لئے اس بات کا ثبوت رکھتی ہیں کہ پاکستان میں کالعدم دہشت گرد تنظیمیں اپنا وجود رکھتی ہیں ۔ اسی لئے شاید دہلی میں قائم جنوبی ایشیا دہشت گردی پورٹل نامی تھنک ٹینک نے بھی مزاحمتی محاذ کو لشکر طیبہ کی شاخ قرار دیا ہے ۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی سکیورٹی فورسسز کے خلاف ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری کی ذمہ داری مزاحمتی محاذ قبول کرچکا ہے ۔ واشنگٹن میں مقیم جنوبی ایشیا کے تجزیہ کار اور فارن پالیسی میگزین کے مصنف مائیکل کوگل مین بھی کہہ رہے ہیں کہ امریکہ کے اس اقدام سے نئی دہلی کے اس خیال کی بھی تائید ہوتی ہے کہ مزاحمتی محاذ کا تعلق لشکر طیبہ سے ہے ۔ دنیا تو امریکہ کی زبان بولتی ہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ امریکہ کے حالیہ اقدام کی حمایت کرنے والے تھنک ٹینک و دیگر ادارے اس وقت کیوں خاموش رہے جب پاکستان نے پہلگام حملہ میں کسی پاکستانی تنظیم کے ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوے انکوائری کروانے کی تجویز دی تھی ۔ اس وقت بھارت کیوں راضی نہ ہوا اورنہ ہی کسی تھنک ٹینک نے بھارت کو انکوائری پر راضی کرنے کی کوشش کی ۔ اب جبکہ اس واقعہ کو تین ماہ گزر چکے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان اس واقعہ سے پیدا ہونے والی کشیدگی میں نمایاں کمی آ چکی ہے ایک نیا شوشہ چھوڑ کر ماحول کو دوبارہ گرم کئے جانے کا سامان پیدا کیا جا رہا ہے جو کسی طور دونوں ملکوں کے لئے درست نہی ۔ اس لئے امریکہ بہادر کے یکطرفہ اعلان کو قبول کئے جانے سے قبل واقعہ کی انکوائری کیا جانا ضروری ہے ۔
غذائی اجناس کو فلسطین بھجوایا جاے
جب سے غزہ میں اسرائیل نے بمباری اور زمینی حملے شروع کئے ہیں اس کی بربریت کے آگے مظلوم فلسطینی
بے بسوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ ساٹھ ہزار فلسطینوں کی ہلاکت کےبعد جو اب تک زندہ ہیں وہ بھوک سے ہلاک ہو رہے ہیں ۔ ایک نیوز ایجنسی کی طرف سے جاری کی جانے والی اطلاع کے مطابق دوبئی میں
یو ایس ایڈ پروگرام کے تحت سٹور کی جانے والی 622 میٹرک ٹن غذا میں سے 496 ٹن غذا ضائع کی جا رہی ہے کیونکہ اس کی معیاد 31 جولائی کو ختم ہو رہی ہے ۔ اس غذا کو ضائع کرنے پر ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر
خرچ اے گا ۔ غذا کی قیمت سات لاکھ ترانوے ہزار ڈالر ہے ۔ غزہ میں بچے پانی کی ایک ایک بوند اور بریڈ کے ایک ٹکڑے کو ترس رہے ہیں ۔ ہم اپنی نحیف آواز مسلمان بادشاہوں تک پہنچانا چاہتے ہیں تا کہ شائد قران پڑھنے والی قوم کے کسی رئیس کو ترس آ جاے اور وہ 8 لاکھ ڈالر کی افر دے کر یہ غذائی اجناس فلسطین میں منتقل کر دے۔
واللہ بالتوفیق