اجکل پیپلز پارٹی کے سیاست دان عبد القادر پٹیل کی قومی اسمبلی میں کی جانے والی تقریر کا کچھ حصہ سوشل میڈیا پر بہت پھیلایا جا رہا ہے ۔عبدالقادر پٹیل کوئی قومی لیڈر نہی ۔ ان کی حثیت اور نیشنل اسمبلی میں موجودگی آصف علی زرداری کی مرہون منت ہے ۔ شائد اسی لئے عبدالقادر پٹیل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان سے زیادہ آصف علی زرداری کے وفادار ہیں ۔ جس حساس موضوع پر چند روز قبل انہوں نے اظہار خیال کیا ہے اور اپنی بات کو پر اثر بنانے کے لئے جن خرافات کا سہارا لیا وہ اس سے قبل بھی اس حساس موضوع پر طبع آزمائی کر چکے ہیں ۔ قومی اسمبلی وہ نیشنل ایوان ہے جس نے ملک کے تمام شہریوں طبقات ،فرقوں ،ثقافتوں کا نہ صرف خیال رکھنا ہوتا ہے بلکہ ان کے حقوق کی پاسداری قومی اسمبلی اور ممبران اسمبلی کے فرائض میں شامل ہے ۔ ایک بار بھٹو صاحب نے جوش میں آکر کہا تھا کہ ہم ڈھاکہ جانے والوں کی ٹانگیں توڑ دیں گے ۔ اس غلطی کا خمیازہ قوم نے اس طرح ادا کیا کہ ملک ایک ٹانگ سے محروم ہو گیا ۔ قومی اسمبلی کے فلور سے کہی جانے والی بات ہر قسم کے تعصب سے پاک ہونی چائیے ۔ یہ ایوان قومی ایوان ہے جس کو مذہب سے بالاتر ہو کر ملک میں رہنی والی ہر قومیت کے احساس کی نمائندگی کرنا ہوتی ہے
اور ایسا پوری دنیا میں ہوتا ہے ۔ایک پاکستان ہے جہاں جس اسمبلی ممبر کا جب دل چاہے مذہب کی آڑ میں دوسری قومیتوں اور فرقوں پر تبرے برسانا شروع کر دے ۔ یہی دو روز قبل عبدالقادر پٹیل نے کیا ہے ۔ اپنے
تنگ نظر جھوٹے نظریات اور خیالات کو Laoud & Clear کی گولی میں لپیٹ کر فائر پر فائر کرتے رہے ۔ عزت ماب سپیکر جناب ایاز صادق سر جھکائے اس جھوٹ کو خاموشی سے سنتے رہے ۔ انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ جس الزام کا جواب دینے والا کوئی نہ ہو اس بات کو قومی اسمبلی کے فلور سے کرنے کی ممانعت ہونی چائیے ۔ عبادات کے بعد رواداری اسلام کا اصل چہرہ ہے ۔ جب کوئی قوم کلچر سے دور ہو جاتی ہے تو وہ بربریت اور حیوانیت کے قریب ہوتی جاتی ہے ۔ اپنی فکر کے متضاد نظریات کو برداشت کرنے کی سکت یوں کھو دیتی ہے کہ ان کی زندگیوں کو ختم کرنے کی روش پر چل پڑتی ہے ۔ دلیل کے جواب میں گالی اور
حقائق کی جگہ نعرہ یہ ہے آج کا پاکستان جہاں تاریخ اور جغرافیہ سے بے خبری روز نئے حادثات کو جنم دے رہی ہے ۔ عبدالقادر پٹیل صاحب ! اقلیت اعدادوشمار کا کھیل نہیں ۔ اقلیتیوں اور اکثریتی گروہوں میں تعلق سے ریاست کا تشخص ، سماجی ہم آہنگی اور انسانی ترقی کا معیار طے پاتا ہے ۔ افسوس کہ پاکستان کا یہ تشخص کمزور پڑتا جا رہا ہے ۔
عبدالقادر پٹیل کی قومی اسمبلی میں کی جانے والی تقریر قائد اعظم کی ۱۱ اگست کی تقریر کی نفی ہے ۔ جب پاکستان بن رہا تھا اس وقت مسلم لیگ کے قائدین نے جو سنہری خواب دکھاے ان کو آنکھوں میں بسا کر لوگوں نے ہجرت کا سفر اختیار کیا ۔ لاکھوں منزل پر پہنچنے سے پہلے شہید ہو گئے ۔جو پہنچ پاۓ ان کی نسلوں کو سیاست دانوں اور مذہبی شدت پسندوں نے تو اور میں کی پہچان میں تقسیم کر دیا ۔ آج کے سیاسی قائدین
ان کا تعلق چاہے مسلم لیگ سے ہو یا پیپلزپارٹی یا پھر تحریک انصاف سے سب الٹی کنگا بہانے کی کوشش میں لگے ہوے ہیں ۔ پرویز رشید اور فرحت اللہ بابر کی آوازیں ملائیت کے ہم نوالہ سیاست دانوں کی نسبت بہت نحیف ہیں ۔
عبدالقادر پٹیل نے جس فلور پر کھڑے ہو کر نفرت کے جن بیجوں کی آبیاری کی وہاں تک تو ہماری پہنچ نہی لیکن ہم نسل در نسل اپنے قلم کی حرمت کی خاطر آپ کو بھی Laoud & Clear بتا دینا چاہتے ہیں کہ یہ ملک سب کا ہے اور اس میں رہنے والا ہر شہری برابر کا حق رکھتا ہے ۔ جو اس حق کو تسلیم نہی کرتا وہ ظالم ہے اور جو اس کے خلاف آواز نہی اٹھتا اس کا شمار بھی انصاف کا خون کرنے والوں میں ہو گا ۔