کابل (نامہ نگار) —
افغانستان میں خواتین کے اسلامی لباس سے متعلق مبینہ خلاف ورزیوں پر طالبان حکام کی جانب سے "بڑی تعداد میں خواتین” کو حراست میں لیے جانے کی خبروں پر اقوام متحدہ نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے، تاہم طالبان حکومت نے ان اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
اقوام متحدہ کے امدادی مشن برائے افغانستان (یوناما) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ 16 سے 19 جولائی کے دوران کابل میں درجنوں خواتین اور لڑکیوں کو اس بنا پر حراست میں لیا گیا کہ وہ طالبان کی طرف سے مقرر کردہ ’حجاب ڈریس کوڈ‘ کی مکمل پابندی نہیں کر رہی تھیں۔
یوناما کے مطابق یہ کارروائیاں نہ صرف خواتین کے لیے مزید پابندیوں اور معاشرتی دباؤ کا باعث بن رہی ہیں بلکہ افغان معاشرے میں خوف اور بے اعتمادی کو بھی بڑھا رہی ہیں۔
عینی شاہدین کی گواہی
کابل کے مقامی شہریوں کے مطابق طالبان کی وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی گشتی ٹیمیں شہر کے مختلف علاقوں میں متحرک رہیں۔ ایک شہری "عثمان” (فرضی نام) کے مطابق بعض خواتین کو اس وقت حراست میں لینے کی کوشش کی گئی جب وہ عبایا اور حجاب میں تو تھیں، مگر اُنہوں نے میک اپ کیا ہوا تھا۔
عثمان کا کہنا ہے کہ "ابتدا میں خواتین اہلکاروں نے انہیں روکنے کی کوشش کی، اور جب مزاحمت ہوئی تو ایک مرد اہلکار بندوق کے ساتھ آیا اور خواتین کو زبردستی وین میں سوار کر دیا گیا۔”
طالبان کی وضاحت
تاہم طالبان حکام نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ترجمان سیف الاسلام خیبر نے کہا ہے کہ نہ تو کسی خاتون کو گرفتار کیا گیا ہے، نہ ہی کسی کو جیل بھیجا گیا ہے۔ ان کے بقول، وزارت صرف خواتین کو اسلامی لباس پہننے کی ترغیب دیتی ہے۔
عالمی ردِعمل
اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ وہ ان واقعات پر طالبان حکام سے رابطے میں ہے اور یہ اقدامات صنفی امتیاز کے زمرے میں آتے ہیں، جو انسانی حقوق کی عالمی اقدار کے خلاف ہیں۔
یاد رہے کہ طالبان نے اگست 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد خواتین کی تعلیم، ملازمت اور آزادیٔ نقل و حرکت پر سخت پابندیاں عائد کی ہیں۔ اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری ان اقدامات پر مسلسل تنقید کرتی رہی ہے۔