نئی دہلی – بھارت کے نائب صدر جگدیپ دھنکڑ کے اچانک استعفے نے ملک کی سیاسی فضا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اگرچہ انہوں نے اپنے صحت کے مسائل کو استعفے کی وجہ قرار دیا ہے، لیکن ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس فیصلے کے پیچھے کسی طاقتور فون کال اور مرکزی حکومت سے شدید اختلافات شامل تھے۔ذرائع کے مطابق پیر کو پارلیمنٹ کے مانسون سیشن کے آغاز پر جسٹس یشونت ورما کو ہٹانے کے خلاف اپوزیشن کی طرف سے ایک نوٹس پیش کیا گیا، جسے جگدیپ دھنکڑ نے قبول کر لیا۔ ان کے اس فیصلے سے مرکزی حکومت ناراض ہو گئی، کیونکہ اس سے عدلیہ کے خلاف سخت مؤقف اپنانے کا موقع ہاتھ سے نکل گیا۔
رپورٹس کے مطابق، نوٹس قبول کرنے کے بعد مرکز کی جانب سے ایک کال موصول ہوئی، جس میں معاملے پر بات چیت تلخ بحث میں بدل گئی۔ اسی دوران دھنکڑ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کی خبریں بھی زیرِ گردش آئیں۔
اس ساری صورتحال کے دوران کانگریس رہنما جے رام رمیش نے دعویٰ کیا کہ نائب صدر نے پیر کو دوپہر 12:30 بجے بزنس ایڈوائزری کمیٹی کی صدارت کی، جس میں جے پی نڈا اور کرن رجیجو موجود تھے، لیکن شام 4:30 بجے دوبارہ بلائی گئی میٹنگ میں دونوں وزرا غیر حاضر رہے۔
رمیش کا کہنا ہے کہ دھنکڑ کو ذاتی طور پر آگاہ نہیں کیا گیا کہ یہ سینئر وزرا میٹنگ میں شامل نہیں ہوں گے، جس سے وہ ناراض ہوئے اور اجلاس کو اگلے دن ملتوی کر دیا۔ اپنے خط میں دھنکڑ نے صدر دروپدی مرمو کو لکھا:”صحت کی دیکھ بھال کو ترجیح دینے اور طبی مشورے پر عمل کرنے کے لیے، میں آئین کے آرٹیکل 67(A) کے تحت، فوری طور پر نائب صدر کے عہدے سے استعفیٰ دیتا ہوں۔”
حکومت کی طرف سے اب تک کوئی باضابطہ وضاحت سامنے نہیں آئی، مگر اندرونی ذرائع بتاتے ہیں کہ یہ معاملہ محض صحت کی بنیاد پر لیا گیا فیصلہ نہیں ہے، بلکہ یہ عدلیہ، سیاست اور اختیارات کے درمیان کشمکش کی ایک نئی کہانی ہے۔
اس غیر متوقع پیش رفت نے ملک کی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے اور یہ سوال اب گونجنے لگا ہے کہ: "کیا نائب صدر کا استعفیٰ واقعی طبی بنیاد پر تھا، یا پسِ پردہ کچھ اور کھیل جاری تھا؟”