اسلام آباد / نئی دہلی / واشنگٹن – سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستانی آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس میں دیے گئے ظہرانے نے خطے میں سفارتی توازن کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بھارت نے امریکا سے اس ملاقات پر سخت احتجاج ریکارڈ کرایا ہے، جب کہ نئی دہلی نے بطور حکمتِ عملی چین سے تعلقات میں نرمی لانے کا آغاز کر دیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق، بھارت کے تین سینئر حکام نے بتایا ہے کہ بھارت نے واشنگٹن کو پیغام دیا ہے کہ پاکستان کے فوجی ادارے کے قریب جانے سے امریکا "غلط پیغام” دے رہا ہے، کیونکہ بھارت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان سرحد پار دہشت گردی کی پشت پناہی کرتا ہے۔
اس احتجاج کے باوجود، سابق صدر ٹرمپ نے مئی میں پاک بھارت مختصر جنگ کے فوراً بعد آرمی چیف عاصم منیر کو تنہا طور پر وائٹ ہاؤس مدعو کر کے نہ صرف بھارتی تشویش کو نظر انداز کیا، بلکہ اس ملاقات میں انسدادِ دہشت گردی تعاون اور عسکری تعلقات پر بات چیت کی گئی۔
واشنگٹن میں ایشیا پیسیفک فاؤنڈیشن کے سینئر تجزیہ کار مائیکل کُگلمین نے کہا، "اس بار کشیدگی کا دائرہ صرف سفارتکاری تک محدود نہیں رہا بلکہ تجارتی محاذ تک پھیل چکا ہے، اور اس کی بڑی وجہ ٹرمپ کی غیر متوقع پالیسی سازی ہے۔”
ادھر بھارت میں سیاسی و عسکری حلقوں میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے پاکستانی فوجی قیادت پر مذہبی انتہا پسندی کا الزام عائد کیا، جبکہ بھارت کی وزارتِ خارجہ نے ٹرمپ–عاصم منیر ملاقات کا باقاعدہ نوٹس بھی لیا ہے۔
اسی تناظر میں بھارت نے چین کے ساتھ 2020 کی سرحدی جھڑپ کے بعد پہلی بار اعلیٰ سطحی سفارتی روابط بحال کیے ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ کا حالیہ بیجنگ دورہ اور چین پر سرمایہ کاری کی پابندیوں میں نرمی، اس پالیسی تبدیلی کی واضح مثالیں ہیں۔
بین الاقوامی امور کے ماہرین کے مطابق بھارت کا چین کی طرف جھکاؤ اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ امریکا پر اب تنہا انحصار نہیں کرنا چاہتا، خصوصاً ایسے وقت میں جب ٹرمپ کی پالیسیز غیر متوقع اور یکطرفہ دکھائی دے رہی ہیں۔
ادھر پاکستان نے بھارت کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا، اور پاکستان صرف خطے میں امن کا خواہاں ہے۔
اس نئی صف بندی سے خطے میں سفارتی، دفاعی اور تجارتی تعلقات کے توازن میں ممکنہ تبدیلی کے امکانات بڑھ گئے ہیں، جس کے اثرات مستقبل قریب میں مزید واضح ہوں گے۔