اسلام آباد/واشنگٹن/نئی دہلی – امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے "دی ریزسٹنس فرنٹ” (TRF) کو عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے فیصلے نے پاکستان کو شدید سفارتی، سیاسی اور سلامتی کے چیلنجز سے دوچار کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کشمیر کے پہلگام میں غیر ملکی سیاحوں پر حملے میں TRF کو ملوث قرار دیا گیا، جس میں کئی بے گناہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے TRF کو دہشت گرد گروپوں کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے کہا کہ یہ تنظیم لشکر طیبہ کا فرنٹ ہے، جو پہلے ہی عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دی جا چکی ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے کہا کہ TRF کی کارروائیاں خطے میں امن کے لیے خطرہ ہیں، اور اسے عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف پالیسیوں کو مزید سخت بنانے کے تناظر میں شامل کیا گیا ہے۔
بھارت نے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ "یہ قدم بھارت اور امریکہ کے درمیان دہشت گردی کے خلاف بڑھتے ہوئے تعاون کا مظہر ہے۔”
پاکستان کے ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار نے امریکی فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ TRF کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے لیے ٹھوس شواہد پیش کیے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ "جب تک کسی تنظیم پر حملے میں ملوث ہونے کے ناقابلِ تردید شواہد فراہم نہ کیے جائیں، پاکستان اسے غیر قانونی قرار نہیں دے سکتا۔”
تاہم، پاکستان میں اس معاملے پر حکومتی اور عسکری بیانیے میں واضح اختلاف دیکھا گیا، جس نے داخلی سطح پر ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ TRF سے متعلق پاکستان کا غیر واضح موقف ملک کو عالمی سطح پر تنہائی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستان کی ساکھ، معیشت اور خارجہ پالیسی شدید دباؤ کا سامنا ہے ۔پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی جانب سے دوبارہ ‘گری لسٹ’ میں شامل کیے جانے کا خدشہ لاحق ہو سکتا ہے، جیسا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کے ذریعے پہلے ہو چکا ہے۔
پاکستان کو داخلی پالیسیوں میں شفافیت اور دہشت گردی کے خلاف ٹھوس اقدامات کی جانب بڑھنا ہوگا، ورنہ معاشی و سفارتی تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔