اسلام آباد (بیورو رپورٹ محمد سلیم سے ) — نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے ذریعے ہنی ٹریپ میں آ کر بلاسفیمی کے مقدمات کا سامنا کرنے والے بچوں کے والدین اور ان کے وکلاء نے شفاف تحقیقات اور آزاد کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔
پریس کانفرنس میں وکلاء عثمان وڑائچ ایڈووکیٹ، رانا عبدالحمید ایڈووکیٹ، ایمان مزاری ایڈووکیٹ، رضوان ایڈووکیٹ اور متاثرہ بچوں کے والدین نے شرکت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر پٹیشن اور حکومت کو دی گئی درخواست کا مقصد قانون میں ترمیم یا توہین رسالت کے قانون کی مخالفت نہیں بلکہ مبینہ طور پر بلاسفیمی کے جھوٹے مقدمات بنانے والے گروہ کی نشاندہی کرنے والی رپورٹ پر غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ ہے۔
متاثرین نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ اور ان کے بچے مسلمان ہیں اور عقیدہ ختم نبوت ﷺ پر کامل ایمان رکھتے ہیں، تاہم کچھ عناصر ذاتی و مالی مفادات کے لیے مذہب کے نام پر ہنی ٹریپ کے ذریعے معصوم نوجوانوں کو پھنسا کر ان کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کر رہے ہیں۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ دنیا بھر میں دو ارب مسلمان بستے ہیں، لیکن توہین مذہب کا مواد مبینہ طور پر محض انہی 35 افراد کو موصول ہوتا ہے، جو ان تمام کیسز میں ملوث پائے گئے ہیں، اور جن کے پتے کبھی راولپنڈی تو کبھی اسلام آباد ظاہر کیے جاتے ہیں۔
پریس کانفرنس میں یہ بھی بتایا گیا کہ متاثرہ خاندانوں اور حتیٰ کہ عدالت کے معزز ججز کو بھی سوشل میڈیا پر دھمکیوں اور تنقید کا سامنا ہے، جو عدالتی عمل پر اثرانداز ہونے کی کوشش کے مترادف ہے۔
وکلاء کا کہنا تھا کہ قومی اداروں کی رپورٹس کے باوجود تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل کی مخالفت دراصل حقائق کو چھپانے کی کوشش ہے۔ اگر متعلقہ افراد بے گناہ ہیں تو انہیں کمیشن کی حمایت کرنی چاہیے تاکہ حقیقت سامنے آ سکے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان 35 افراد کے 2021 کے بعد سے اثاثہ جات اور ذرائع آمدن کی مکمل چھان بین کی جائے۔ ساتھ ہی حکومت، عدلیہ، سول سوسائٹی اور علمائے کرام سے اپیل کی کہ وہ کمیشن کے قیام میں رکاوٹ نہ بنیں بلکہ سچائی کو بے نقاب کرنے میں مدد دیں۔
وکیل عثمان وڑائچ ایڈووکیٹ نے اعلان کیا کہ کمیشن کی تشکیل سے روکنے کے فیصلے کو آئینی عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔