لندن: برطانیہ کی پارلیمنٹ کے 220 سے زائد ارکان، جن میں درجنوں کا تعلق حکمران لیبر پارٹی سے ہے، نے وزیرِاعظم کیئر سٹارمر سے مطالبہ کیا ہے کہ برطانیہ فلسطین کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر باضابطہ تسلیم کرے۔
یہ مطالبہ نو مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کے دستخط شدہ ایک مشترکہ خط کے ذریعے سامنے آیا، جو فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون کے اس اعلان کے ایک روز بعد جاری کیا گیا کہ فرانس ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فلسطین کو تسلیم کرے گا۔
اگر فرانس نے یہ اقدام اٹھایا، تو وہ جی سیون (G7) ممالک میں پہلا ملک ہو گا جو فلسطینی ریاست کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرے گا، جسے اسرائیل اور امریکہ دونوں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
خط میں برطانوی ارکانِ پارلیمنٹ نے کہا:
"ہم آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے آئندہ اجلاس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا جائے، تاکہ برطانیہ اپنی تاریخی ذمے داری پوری کرے اور دو ریاستی حل کی پالیسی کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔”
یہ اجلاس 28 اور 29 جولائی کو نیویارک میں متوقع ہے، جس کی مشترکہ صدارت فرانس اور سعودی عرب کر رہے ہیں۔
ارکان نے اپنے خط میں 1917 کے بالفور اعلامیے کا بھی حوالہ دیا جس نے اسرائیلی ریاست کے قیام کی بنیاد رکھی تھی، اور کہا کہ اب برطانیہ کی یہ تاریخی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ فلسطینیوں کو ان کا جائز حق دے۔
خط میں کہا گیا:
"1980 سے برطانیہ دو ریاستی حل کی حمایت کرتا آیا ہے۔ فلسطین کو تسلیم کرنا اسی اصول کی توثیق اور فلسطینی عوام کے ساتھ انصاف ہو گا۔”
خط پر دستخط کرنے والوں میں لیبر، کنزرویٹو، لبرل ڈیموکریٹک، اسکاٹش نیشنل پارٹی، ویلز کی جماعتیں اور دیگر آزاد ارکان شامل ہیں۔
دوسری جانب وزیراعظم کیئر سٹارمر نے جمعے کے روز فرانس اور جرمنی کے رہنماؤں سے غزہ کی صورت حال پر گفتگو کے بعد بیان میں کہا:
"ہم خطے میں پائیدار امن کی تلاش میں ہیں، اور فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنا اس راستے کا ایک حصہ ہو سکتا ہے، مگر یہ اقدام کسی وسیع تر سیاسی منصوبے کے تحت ہی ہونا چاہیے۔”
غزہ میں جاری جنگ، تباہ کن انسانی بحران، اور ممکنہ قحط کے خطرے کے باعث برطانوی حکومت پر اندرون و بیرونِ ملک دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے۔