اسلام آباد —بیورو رپورٹ محمد سلیم سے
پاکستان کی پارلیمانی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے حالیہ اجلاس میں چینی کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے، برآمدات، درآمدات اور شوگر انڈسٹری میں مبینہ اجارہ داری پر سنجیدہ سوالات اٹھائے گئے۔ آڈیٹر جنرل پاکستان نے انکشاف کیا کہ صرف قیمتوں میں حالیہ اتار چڑھاؤ سے ملک کی شوگر ملز نے 300 ارب روپے کا منافع حاصل کیا۔
اجلاس کے دوران بتایا گیا کہ 2023-24 میں چینی کی مقامی پیداوار 68 لاکھ ٹن رہی، جب کہ مجموعی اسٹاک 76 لاکھ ٹن تھا۔ اس میں سے 8 لاکھ ٹن کو اضافی قرار دیتے ہوئے 7.9 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی۔ تاہم صرف 7.5 لاکھ ٹن برآمد ہو سکی، اور بعد ازاں حکومت کو مقامی ضروریات کے لیے 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنی پڑی۔
پی اے سی ارکان نے زور دیا کہ نہ صرف شوگر ملز بلکہ ان کے مالکان اور ڈائریکٹرز کی تفصیلات بھی قوم کے سامنے لائی جائیں۔ وزارت صنعت نے بعد ازاں شوگر ملز، ان کے مالکان اور برآمدی تفصیلات کی فہرست پیش کی، جس کے مطابق گزشتہ برس 40 کروڑ ڈالر مالیت کی چینی برآمد کی گئی۔ سب سے زیادہ چینی افغانستان کو برآمد کی گئی، اور اس عمل میں نمایاں حصہ جے ڈی ڈبلیو شوگر مل کا رہا۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ چینی 117 روپے فی کلو برآمد کی گئی، جب کہ بعد ازاں 170 روپے فی کلو درآمد کی گئی، جس پر ارکان نے شدید تنقید کی۔ قومی اسمبلی کے رکن عامر ڈوگر نے دعویٰ کیا کہ ملک میں سب سے زیادہ شوگر ملز زرداری خاندان کی ملکیت میں ہیں، جب کہ جہانگیر ترین اور شریف خاندان بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر آتے ہیں۔
عامر ڈوگر کے الزامات پر پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری اور سینیٹر بلال نے شدید ردعمل دیا، اور ارکان کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ دیکھنے میں آیا۔ سینیٹر افنان اللہ نے طنز کیا کہ الزام لگانے والوں کو اپنی پارٹی کی مالی معاونت کے ذرائع بھی واضح کرنے چاہییں۔
صحافی اور رکن کمیٹی معین پیرزادہ نے شوگر ایڈوائزری بورڈ کو بحران کی "جڑ” قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ شوگر مافیا حکومتی نظام میں شامل ہے اور قیمتوں کے ذریعے عوام کا استحصال کر رہی ہے۔ ارکان نے زور دیا کہ حکومت چینی برآمد و درآمد سے متعلق شفافیت یقینی بنائے۔
پی اے سی کے چیئرمین نے سوال اٹھایا کہ جب ملک میں وافر ذخائر موجود تھے تو چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟ ارکان نے چینی کی ایکس مل قیمت اور مارکیٹ قیمت کے تضاد پر بھی تحفظات ظاہر کیے، جب کہ کچھ نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ چینی بھارت میں 143 روپے فی کلو میں دستیاب ہے، جب کہ پاکستان میں قیمت 210 روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہے۔
اجلاس کے اختتام پر پی اے سی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ چینی بحران کے اصل ذمے داروں کا تعین کر کے عوام کو اعتماد میں لیا جائے، اور مستقبل میں شفاف پالیسی کے تحت چینی کی قیمتوں کو قابو میں رکھا جائے۔