اسلام آباد، بیورو رپورٹ محمد سلیم سے
پاکستان کی سپریم کورٹ نے خواتین کے حقوق سے متعلق ایک تاریخی اور بین الاقوامی سطح پر اہمیت رکھنے والا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ طلاق یافتہ بیٹی والد کی پنشن کی مکمل حقدار ہے، خواہ طلاق والد کی وفات سے پہلے ہوئی ہو یا بعد میں۔
عدالت عظمیٰ نے اس فیصلے میں زور دیا کہ پنشن خیرات یا احسان نہیں بلکہ ایک آئینی اور قانونی حق ہے جو کسی بھی شہری، خاص طور پر ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے اہل خانہ کو فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک میں خواتین کے معاشی حقوق کے تحفظ کی سمت اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ عدالتی فیصلہ اس وقت آیا ہے جب دنیا بھر میں خواتین کے وراثتی اور مالی حقوق کے تحفظ کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے اس فیصلے کو جنسی مساوات اور مالی انصاف کے لیے ایک قابل تقلید نظیر قرار دے رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا:> "طلاق یافتہ بیٹی کو محض اس کے ازدواجی اسٹیٹس کی بنیاد پر والد کی پنشن سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ خواتین کے خلاف امتیازی رویہ بھی ہے۔”
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسے اداروں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جنوبی ایشیا میں خواتین کے مالی حقوق کے لیے ایک "مثبت نظیر” ہے۔
خواتین کے حقوق کی عالمی تنظیموں نے پاکستان کی سپریم کورٹ کے اس قدم کو قانونی مساوات کی جانب اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔
یہ فیصلہ نہ صرف پاکستان کے قانونی نظام میں اصلاحات کی عکاسی کرتا ہے بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی ایک پیغام ہے کہ خواتین کے مالی اور قانونی حقوق کو تسلیم کیا جانا لازم ہے، چاہے ان کا سماجی یا ازدواجی اسٹیٹس کچھ بھی ہو۔