The Legacy of Maududi’s Thought: Sectarian Politics, Historical Disruption, and Ideological Manipulation in Muslim Societies
پاکستان کے فکری، مذہبی اور سیاسی منظرنامے پر اگر گزشتہ سات دہائیوں کی نظریاتی گہرائی میں جھانکا جائے تو ایک اہم اور مسلسل جاری رہنے والی لہر "مودودی فکر” کی صورت میں ابھرتی دکھائی دیتی ہے۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کی تحریریں، سیاسی سرگرمیاں اور ان کے قائم کردہ جماعتی نظام نے صرف ایک جماعت اسلامی کو جنم نہیں دیا بلکہ ایک ایسا مذہبی بیانیہ تشکیل دیا جو بعد ازاں ریاستی مقتدرہ، عرب تنظیموں، اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے مفادات سے ہم آہنگ ہوتا چلا گیا۔
پاکستان میں دینی سیاست کے جس "مین اسٹریم” بیانیے نے جگہ بنائی، وہ بظاہر مختلف مکاتبِ فکر سے جُڑا نظر آتا ہے، مگر اس کے مرکزی دھارے میں مودودی فکر کی چھاپ نمایاں ہے۔ مذہبی جماعتوں، مدارس، اور یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے لٹریچر کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہ زیادہ تر اسی نظریے سے اخذ کردہ عناصر پر مشتمل ہے۔ مقتدر قوتوں نے بھی اسی بیانیے کو بطور مذہبی تکیہ استعمال کیا اور ریاستی مقاصد کی تکمیل کے لیے مذہب کو نظریاتی ہتھیار کی صورت بروئے کار لایا۔ اس ضمن میں، مولانا مودودی کی معروف کتاب "اسلام کا سیاسی نظام” کو ریاستی اور غیر ریاستی اداروں نے اپنے مقاصد کے لیے بنیاد بنایا۔ خود مودودی صاحب تحریر کرتے ہیں:
"اسلام کوئی مذہبی فرقہ نہیں بلکہ ایک انقلابی نظریہ اور تحریک ہے، جو پوری دنیا کے نظام کو بدل دینا چاہتی ہے۔”
(اسلام کا سیاسی نظام)
یہی نظریہ بعد میں مشرق وسطیٰ میں اخوان المسلمین، الجزائر کی اسلامی سالویشن فرنٹ، فلسطینی تنظیموں، حتیٰ کہ ترکی کی نئ مذہبی جماعتوں تک پھیل گیا۔ عرب دنیا میں اس فکر کا استعمال بالخصوص اُن تنظیموں کے خلاف کیا گیا جو سوشلسٹ یا قوم پرست نظریات رکھتی تھیں، جیسے بعث پارٹی یا فلسطینی لبریشن فرنٹ۔ اس پس منظر میں جماعتِ اسلامی کا کردار قابلِ ذکر ہے جس نے 1971ء میں مشرقی پاکستان میں بنگلہ دیشی عوام کے حقوق کی مخالفت کی، اور بعد ازاں افغان جہاد کے ذریعے امریکی ایجنڈے کو عملی تقویت دی۔ افغان جہاد کی فکری بنیاد میں جس اسلامی آدرش کی بات کی گئی تھی، اس کا انجام آج افغانستان کی تباہ حال معاشی و معاشرتی صورتحال سے بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔
مولانا مودودی کی فکر تین مرکزی بنیادوں پر کھڑی نظر آتی ہے۔ اول، جاگیرداری کے تصور کو مذہبی جواز دینا؛ دوم، پین اسلام ازم کے مبہم اور غیر حقیقی تصور کو فروغ دینا؛ اور سوم، اسلامی تاریخ کے تسلسل کو خلافتِ راشدہ کے بعد مسترد کر دینا۔
ان کی کتاب "مسئلہ ملکیت زمین” میں لکھا ہے کہ:
"شریعت اسلام میں زمین کی ملکیت افراد کو دی گئی ہے اور وہ اس کے حقیقی مالک ہو سکتے ہیں۔”
یہ موقف بنیادی طور پر انگریزی نوآبادیاتی جاگیردارانہ نظام کی توثیق کے مترادف تھا، جبکہ برعکس اس کے شاہ ولی اللہ دہلوی اور ان کے بعد کے مصلحین زمینداری کو ظلم قرار دیتے تھے۔
اسی طرح پین اسلام ازم کا جو تصور مودودی صاحب نے پیش کیا، اس میں وہ قومی ریاستوں، قومی مفاد، اور ثقافتی تنوع کو یکسر رد کرتے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اسلام کو ایک ایسی غیر مرئی خلافت کے دائرے میں رکھ دیا جو نہ زمینی حقائق سے مطابقت رکھتی ہے، نہ ہی عملی دنیا میں کسی ٹھوس نتیجے کی طرف لے جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی فکر پر چلنے والے نوجوان غیروں کی جنگوں میں جانیں دیتے رہے، چاہے وہ افغان جنگ ہو یا حالیہ شام، عراق اور لیبیا کی بربادی۔
تاریخی طور پر بھی ان کا مؤقف اس قدر انتہا پسند تھا کہ انہوں نے خلافتِ راشدہ کے بعد کے دور کو ملوکیت سے تعبیر کیا اور اسلامی تاریخ کے سنہری ادوار جیسے عباسی، فاطمی، عثمانی سلطنتوں کی علمی، سائنسی اور تہذیبی کامیابیوں کو مکمل نظر انداز کر دیا۔ ان کی مشہور کتاب "خلافت و ملوکیت” میں وہ لکھتے ہیں:
"خلافت راشدہ کے بعد کا نظام خالص ملوکیت میں تبدیل ہو گیا، جو اسلامی روح کے منافی تھا۔”
یہ مؤقف صرف نظریاتی ہی نہیں بلکہ سیاسی طور پر بھی ایک مخصوص ذہن سازی کا ذریعہ بنا جس نے مسلم نوجوانوں میں ماضی سے بیزاری اور موجودہ نظام سے بغاوت کو ابھارا، مگر ان کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔
اس فکر کے عملی نتائج آج بھی ہمارے سامنے ہیں:
- مسلم معاشروں میں داخلی انتشار، فرقہ واریت اور عسکریت پسندی۔
- جذباتی اندازِ فکر، جس نے نوجوانوں کو غیر حقیقی یوٹوپیائی خواب دکھائے۔
- مغربی پروپیگنڈے پر یقین اور اپنی زمینی سچائیوں سے غفلت؛ جیسے کہ CNN کی رپورٹوں پر آنکھ بند کر کے یقین، جبکہ اپنے ملک کے لاپتہ افراد پر مکمل خاموشی۔
- تاریخی تسلسل سے انکار اور ہر بحران میں پرانے زخموں کو کریدنے کی عادت۔
اس کے برعکس اگر ہم شاہ ولی اللہ دہلوی کی فکر کو دیکھیں تو وہ ایک متوازن، قومی، اخلاقی اور مصلحانہ نظریہ دیتے ہیں۔ ان کی تحریریں جیسے "حجت اللہ البالغہ” اور "ازالۃ الخفاء”, قومی عدل، معیشت کی بہتری، اخلاقی اصلاح، اور استعماری نظام سے آزادی پر زور دیتی ہیں۔ وہ اسلام کو ایک متوازن تہذیبی قوت کے طور پر پیش کرتے ہیں، نہ کہ صرف ایک انقلابی ہتھیار کے طور پر۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ہم مذہب کو اقتدار کا ذریعہ بنانے کی بجائے اسے وحدت، شعور، اور اخلاقی ترقی کا وسیلہ بنائیں۔ نوجوانوں کو فرقہ وارانہ سیاست سے نکال کر علم، تحقیق اور مکالمے کی جانب لایا جائے۔ مذہب کو ریاستی آلہ کار کی بجائے قومی شعور کا اثاثہ بنایا جائے۔
ستر سال کی فکری آزمائش کے بعد، اب یہ فرض ہے کہ ہم تاریخی حقائق، عدل کے اصول، اور قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک نئی فکری جہت کی طرف بڑھیں، جو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری مسلم دنیا کو وحدت، امن اور ترقی کی راہ پر گامزن کر سکے۔