اسلام آباد/واشنگٹن (انٹرنیشنل مانیٹرنگ ڈیسک) —
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان نے عالمی توجہ حاصل کر لی ہے کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان پاکستان میں موجود مبینہ "وسیع تیل کے ذخائر” کو دریافت کرنے اور قابل استعمال بنانے کے لیے ایک شراکت داری طے پا گئی ہے۔ امریکی صدر نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ‘ٹروتھ سوشل’ پر کہا کہ ایک امریکی آئل کمپنی جلد اس منصوبے کی قیادت کرے گی۔یہ اعلان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان میں تیل و گیس کی مقامی پیداوار میں واضح کمی ریکارڈ کی جا رہی ہے، اور درآمدات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔پاکستان میں تیل و گیس کی تلاش کے منصوبے چاروں صوبوں میں جاری ہیں، تاہم سب سے زیادہ سرگرمیاں صوبہ سندھ میں ہو رہی ہیں جہاں 247 کنویں فعال یا زیر استعمال ہیں۔ پنجاب میں 33، خیبرپختونخوا میں 15 اور بلوچستان میں صرف 4 کنویں ہیں۔ تاہم ماہرین کے مطابق سکیورٹی مسائل، ریونیو تنازعات اور انفراسٹرکچر کی کمی کی وجہ سے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ترقیاتی کام محدود ہے۔ماہر توانائی محمد وصی خان کے مطابق، یو ایس انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ممکنہ طور پر 9 ارب بیرل تیل کے ذخائر ہو سکتے ہیں، مگر یہ ذخائر جب تک تجارتی طور پر قابل عمل نہ ہوں، انہیں "ثابت شدہ” نہیں کہا جا سکتا۔امریکی شمولیت: مقصد تیل یا سیاسی پیغام؟تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ صدر ٹرمپ کا یہ اعلان صرف توانائی کی شراکت داری تک محدود نہیں بلکہ ایک وسیع تر جیو پولیٹیکل اشارہ بھی ہو سکتا ہے، خاص طور پر بھارت کو مخاطب کرنے کے انداز اور "انڈیا کو تیل بیچنے” کی طنزیہ بات کے تناظر میں۔ سابق بھارتی سیکریٹری خارجہ کنول سبل نے اس بیان کو "ٹرمپ کی ذہنیت” کا عکاس قرار دیا اور اسے بھارت کے لیے تضحیک آمیز قرار دیا۔دوسری جانب پاکستانی حکام اور ماہرین نے اسے ایک "مثبت اشارہ” قرار دیا ہے۔ پٹرولیم ڈویژن کے سیکریٹری میاں خان بگٹی نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ "ابھی تفصیلات واضح نہیں، مگر یہ پاکستان کے توانائی کے شعبے کے لیے خوش آئند پیش رفت ہو سکتی ہے۔”کیا چین متاثر ہو گا؟پاکستان میں چین کی بھاری سرمایہ کاری، خصوصاً CPEC کے تحت، توانائی اور بنیادی ڈھانچے میں جاری ہے۔ ماہرین کے مطابق امریکی پارٹنرشپ براہ راست چینی منصوبوں پر اثرانداز نہیں ہو گی، بلکہ ممکنہ طور پر مقابلے، ٹیکنالوجی کی بہتری اور نئی سرمایہ کاری کے دروازے کھولے گی۔
زاہد حسین جیسے جیو پولیٹیکل ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ یہ معاہدہ ابتدائی مراحل میں ہے، اس کے "ان ڈائریکٹ اثرات” چین اور دیگر شراکت داروں کے طرزِ عمل کو متاثر کر سکتے ہیں۔
پاکستانی سوشل میڈیا پر اس اعلان کو کچھ لوگوں نے امید اور کچھ نے طنز سے دیکھا۔ ایک صارف نے کہا: "ہمیں تو ابھی پتا چلا کہ ہمارے پاس تیل ہے، ٹرمپ کا شکریہ!” جبکہ کئی تجزیہ کاروں نے اسے "مزید تجارتی دباؤ” کے طور پر دیکھا، خصوصاً بھارت کے لیے۔
انڈین صحافی ایشان پرکاش نے تبصرہ کیا کہ "یہ بیان شاید پاکستان میں تیل کے ذخائر سے زیادہ، بھارت کو پریشان کرنے کے لیے ہے۔”