نیویارک / اسلام آباد
اقوام متحدہ نے اپنی تازہ رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں جاری کشیدگی، خصوصاً پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ، دہشت گرد گروہوں کے لیے نیا موقع بن سکتی ہے۔ یہ انتباہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی پابندیوں کی نگران ٹیم کی جنوری تا جون 2025 کی رپورٹ میں دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں اپریل میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے، جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے، کے بعد پاکستان و بھارت کے درمیان جھڑپوں کو باعثِ تشویش قرار دیا گیا ہے۔ کئی دنوں کی فائرنگ اور میزائل حملوں کے بعد خطے کی صورتحال انتہائی نازک ہو چکی ہے۔
ابتدائی طور پر حملے کی ذمے داری دی ریزسٹنس فرنٹ (TRF) نے قبول کی، لیکن بعد میں انکار کر دیا۔ رپورٹ میں رکن ممالک کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ یہ حملہ ممکنہ طور پر لشکرِ طیبہ کی مدد کے بغیر ممکن نہ تھا۔ کچھ رکن ممالک نے ٹی آر ایف کو لشکرِ طیبہ کا ہی دوسرا نام قرار دیا، تاہم اس پر اختلافِ رائے بھی سامنے آیا۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (TTP) کو افغانستان کے عبوری حکام سے مکمل لاجسٹک و آپریشنل مدد حاصل ہے۔ ٹی ٹی پی کے پاس تقریباً 6,000 جنگجو موجود ہیں اور اسے داعش خراسان، القاعدہ اور بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کی معاونت بھی حاصل ہے۔
ٹی ٹی پی نے مبینہ طور پر نیٹو معیار کے ہتھیار اسمگلنگ کے ذریعے حاصل کیے اور پاکستانی فوجی تنصیبات پر ڈرون حملے بھی کیے، جن میں سُبی (بلوچستان) اور ماچھی (پنجاب) کے حملے شامل ہیں۔
رپورٹ میں سب سے سنگین خطرہ داعش خراسان کو قرار دیا گیا ہے، جس کی قیادت سنااللہ غفاری کر رہا ہے۔ یہ گروہ شیعہ برادری، غیر ملکیوں اور طالبان حکام کو نشانہ بنا رہا ہے اور 14 سال کے بچوں کو خودکش حملوں کے لیے تیار کر رہا ہے۔
ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسند گروہ افغانستان کے جنوب میں مشترکہ تربیتی کیمپ استعمال کر رہے ہیں، جہاں شدت پسندوں کو اسلحہ، نظریاتی اور عسکری تربیت فراہم کی جا رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں القاعدہ اب صرف چھ صوبوں تک محدود ہے لیکن اس کا عالمی نیٹ ورک بدستور فعال ہے۔ سیف العدل کی قیادت میں اس نے عراق، شام، لیبیا اور یورپ میں سیلز کو دوبارہ منظم کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔
رپورٹ میں عالمی برادری کو خبردار کیا گیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو جنوبی ایشیا میں موجودہ کشیدگی دہشتگردی کی نئی لہر کو جنم دے سکتی ہے، جس کے اثرات پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔