نئی دہلی / واشنگٹن / ماسکو —
امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سخت دھمکیوں کے باوجود بھارت نے واضح کیا ہے کہ اس کی روس سے خام تیل کی درآمدات سے متعلق پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق، بھارتی حکومت نے تیل کمپنیوں کو روس سے خریداری محدود کرنے کا کوئی حکم جاری نہیں کیا۔رپورٹ میں دو اعلیٰ بھارتی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مودی حکومت روس کے ساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون جاری رکھے گی۔ ان میں سے ایک اہلکار نے تصدیق کی کہ حکومت کی طرف سے کمپنیوں کو درآمدات روکنے یا کم کرنے کی کوئی ہدایت موصول نہیں ہوئی۔ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو ممالک روس سے تیل اور اسلحہ خریدتے ہیں، ان پر ممکنہ طور پر 100 فیصد محصولات عائد کیے جائیں گے، جب تک ماسکو یوکرین کے ساتھ امن معاہدہ نہیں کرتا۔ تاہم بعد ازاں ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "انہیں اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ بھارت روس سے کیا خریدتا ہے۔”بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ایک نیوز کانفرنس میں واضح طور پر تو ٹرمپ کے بیان کا ذکر نہیں کیا، لیکن انہوں نے زور دیا کہ:> "مختلف ممالک کے ساتھ ہمارے دو طرفہ تعلقات اپنے معیار اور سیاق و سباق کے مطابق ہوتے ہیں، اور ہم انہیں کسی تیسرے ملک کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ بھارت اور روس کے درمیان مستحکم اور قابلِ اعتماد شراکت داری قائم ہے۔”اس حوالے سے خبر رساں ادارے روئٹرز نے وائٹ ہاؤس، بھارتی وزارت خارجہ اور وزارتِ پیٹرولیم و قدرتی گیس سے تبصرہ حاصل کرنے کی کوشش کی، تاہم فوری طور پر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
قبل ازیں روئٹرز نے خبر دی تھی کہ بھارت کی چند سرکاری ریفائنریوں نے جولائی میں روسی تیل کی خریداری عارضی طور پر بند کی، کیوں کہ قیمتوں میں دی جانے والی رعایتیں کم ہو گئی تھیں۔ اس کے باوجود روس اب بھی بھارت کو خام تیل فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، جو نئی دہلی کی مجموعی ضروریات کا تقریباً 35 فیصد پورا کرتا ہے۔