تجزیہ: ڈاکٹر فضل الرحمن
As US and Russia prepare for a potential Trump–Putin summit, is this a real diplomatic shift or just geopolitical posturing? A deep dive into global stakes.
دنیا ایک بار پھر ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں دو عالمی طاقتیں—امریکہ اور روس—سفارتی محاذ پر بظاہر ایک دوسرے کے قریب آتی دکھائی دے رہی ہیں۔ کریملن کی جانب سے جاری کردہ حالیہ بیان نے عالمی سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان آئندہ دنوں میں ایک براہِ راست ملاقات متوقع ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس پیش رفت کا آغاز امریکی جانب سے کیے گئے رابطے کے نتیجے میں ہوا ہے، جو اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ واشنگٹن ایک بار پھر ماسکو سے بات چیت کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہے۔
اگرچہ کریملن نے ابھی تک ملاقات کے وقت اور مقام کی تفصیلات فراہم نہیں کیں، تاہم اس بات کی تصدیق کر دی گئی ہے کہ مقام طے پا چکا ہے اور دونوں ممالک کے متعلقہ ادارے ملاقات کی عملی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ روسی ترجمان دمتری پیسکوف کا کہنا ہے کہ اصولی طور پر ملاقات پر اتفاق ہو چکا ہے اور اب انتظامی اور پروٹوکولی معاملات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔
یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یوکرین کی جنگ، نیٹو کی مشرقی یورپ میں عسکری موجودگی، تائیوان تنازع، اور عالمی معاشی غیر یقینی صورتحال نے امریکہ اور روس کے تعلقات کو نازک ترین مرحلے پر پہنچا دیا ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات گزشتہ چند سالوں میں سرد جنگ کے دور کی تلخیوں سے کم نہیں رہے۔ امریکہ نے روس پر یوکرین میں جارحیت، سائبر حملوں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دیگر کئی معاملات میں الزامات عائد کیے، جبکہ روس نے امریکہ کو عالمی نظام میں مداخلت کار اور یکطرفہ فیصلے کرنے والا ملک قرار دیا۔
ایسے ماحول میں ایک اعلیٰ سطحی سربراہی ملاقات کی خبر ایک جانب امید کی کرن ہے تو دوسری طرف اس کے محرکات اور مقاصد پر سوالات بھی اٹھ رہے ہیں۔ کیا یہ ملاقات محض سفارتی نمائشی اقدام ہو گی یا کوئی ٹھوس نتیجہ خیز مکالمہ؟ کیا یہ ایک نئی سرد جنگ کے بادلوں کو چھانٹنے کی کوشش ہے یا دونوں فریق محض ایک دوسرے کی عالمی ساکھ کو ٹٹولنے میں مصروف ہیں؟
بعض مبصرین کے مطابق، یہ ملاقات امریکہ کی اس اسٹریٹجک حکمت عملی کا حصہ ہو سکتی ہے جس کے تحت وہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے مقابلے میں روس کے ساتھ نسبتاً کم کشیدگی کا راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے۔ چونکہ چین آج عالمی طاقت کے طور پر امریکہ کے لیے براہ راست چیلنج بن چکا ہے، واشنگٹن یہ چاہے گا کہ ماسکو کے ساتھ کم از کم "مینیج ایبل” تعلقات قائم رہیں۔ دوسری طرف، روس کو بھی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی سے نکلنے کے لیے کسی نہ کسی "بریک تھرو” کی ضرورت ہے، خصوصاً جب یوکرین میں جاری جنگ نے اس کی معیشت، عسکری ساکھ اور سفارتی پوزیشن کو چیلنج کیا ہے۔
یہ ممکنہ ملاقات ایران، شمالی کوریا، مشرق وسطیٰ، اور توانائی کی عالمی سیاست پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔ اگر دونوں رہنما کسی حد تک اعتماد سازی کے عمل کو بحال کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو شاید ہتھیاروں کی دوڑ، توانائی کے راستوں، یا سائبر سکیورٹی جیسے موضوعات پر باقاعدہ معاہدوں کی راہ بھی نکل آئے۔
تاہم تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ امریکہ اور روس کے درمیان کسی بھی سطح پر ہونے والی ملاقات صرف "تصاویر” اور "بیانات” تک محدود رہ سکتی ہے اگر اس میں عملی اقدامات اور تعمیری ایجنڈے کو شامل نہ کیا جائے۔ سفارت کاری میں محض ملاقاتیں کافی نہیں ہوتیں، بلکہ نیت، موقف اور لچک بھی بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔
دنیا کے لیے اس وقت سب سے اہم بات یہ ہے کہ جنگ و جدل سے ہٹ کر عالمی قیادت مکالمے اور باہمی احترام کی راہ اپنائے۔ اگر واقعی امریکی صدر اور روسی صدر کے درمیان ملاقات ہوتی ہے اور اس میں تعمیری گفتگو سامنے آتی ہے، تو یہ نہ صرف یورپ بلکہ ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقی خطوں کے لیے بھی امید کی کرن ہو سکتی ہے۔
فی الحال دنیا منتظر ہے کہ آیا یہ ملاقات ایک نئے باب کا آغاز بنے گی یا محض وقتی سیاسی اسٹیج کا حصہ ثابت ہو گی۔ سچ کیا ہے؟ وقت ہی بتائے گا۔