پاکستانی فوج کے سربراہ فیلڈمارشل عاصم منیر آجکل امریکہ کے سرکاری دورہ پر ہیں ۔ مختصر مدت میں یہ ان کا دوسرا دورہ امریکہ ہے ۔ سچ پوچھیں تو پاکستانی جو ابھی عاصم منیر صاحب کے صدر ٹرمپ کے ساتھ ایک میز کے گرد بیٹھ کر کھانے والے لنچ کے نتائج جاننے کے منتظر تھے کہ فیلڈ مارشل دوبارہ امریکہ جا پہنچے ۔ ان کے دورہ امریکہ سے متعلق آئی ایس پی آر کی طرف سے جو پریس ریلیز جاری کی گئی ہیں ان میں الفاظ کے ہیر پھیر
کے علاوہ جانچنے کو کچھ بھی نہی ۔ جبکہ ملکی سلامتی کو بڑھتے خطرات شہریوں کے لئے پریشانیوں کا موجب بن رہے ہیں ۔ اب ایک عرصہ سے جو کچھ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کی سرزمین پر ہو رہا ہے اس سے سوات آپریشن جیسا خوف ایک بار پھر سر اٹھانے لگا ہے جس سے لوگوں میں بے چینی بڑ ھ رہی ہے ۔ بلوچستان کے ضلع ژوب میں پاک افغان سرحد کے قریب سنتالیس دہشت گردوں کا مارا جانا کوئی معمولی واقعہ نہی جس کو نظر انداز کر دیا جاے ۔ خیبر پختون خواہ میں وزیرستان ،بنوں ،باجوڑ کا علاقہ مسلسل کرفیو کی زد میں ہے ۔ اس سختی کے باوجود تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی ) نے مقامی لوگوں کے گھروں پر قبضہ کر رکھا ہے ۔ خوف سے اب تک آٹھ سو خاندان گھر بار چھوڑ کر جا چکے ہیں اور شنید ہے کہ جو گھر خالی ہوتا ہے وہ ٹی ٹی پی کے قبضہ میں چلا جاتا ہے ۔ حکومتی ادارے بےبس ہیں ۔ امن کے لئے جرگہ ممبران اور تحریک لبیک کے درمیان سات بار ہونے والے مذاکرات بالآخر بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہو گئے ۔ انٹرنیشنل پریس کے ذرائع بتا رہے ہیں کہ ابھی ماموند میں سترہ سو جنگجو موجود ہیں جن میں سے چار سو کا تعلق افغانستان سے ہے ۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان کی آزاد حثیت ختم کر کے صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں دئیے جانے اور فوجی چوکیاں قائم کرنے کے باوجود وہاں امن قائم نہی ہو سکا ۔ بلکہ جنگجؤں کا دائرہ وسیع ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ جنگجؤں کے ساتھ ناکام ہونے والے مذاکرات میں جنگجؤں کے دو مطالبے فیلڈ مارشل صاحب کے لئے چیلنج کی حثیت رکھتے ہیں ۔ پاک فوج کے دستے کنواے کی صورت میں اس علاقہ میں گشت نہی کریں گے اور دوسرا سیکورٹی کے لئے قائم کردہ چیک پوسٹوں پر کھانے اور ضروریات زندگی کی اشیاء کی سپلائی دینے سے قبل جنگجؤں کو اطلاع دی جائے گی ۔ گویا پاک فوج جنگجؤں کے تابع ہو کر اپنی ڈیوٹی سر انجام دے گی ۔ آفرین ہے جنگجؤں کے حوصلہ پر ۔ لیکن ان واقعات سے حالات کی سنگینی کا پتہ چلتا ہے ۔
ان جنگجؤں کے سامنے نہ امریکہ ٹھہر سکا اور نہی اتحادی افواج ان کا مقابلہ کر سکیں ۔ یو کرائن اور غزہ کی جنگ میں پاک فوج کا جب کوئی کردار نہی تو لا محالہ راولپنڈی اور واشنگٹن کے درمیان قربت کی وجہ جنگجؤں سے نجات کی راہ تلاش کرنا ہو سکتی ہے ۔ گزشتہ سال ستمبر میں جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران پاکستان کے نمائندے منیر اکرم نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ افغانستان میں بیس سے زائد دہشت گرد تنظیمیں اور تحریک طالبان پاکستان کے چھ ہزار جنگجو وہاں موجود ہیں ۔ اب پھر ستمبر سر پر ہے ۔ اس ایک سال میں پاکستان نے کیا کوشیش کئیں یا پاکستان کی کوششوں کو کیا پھل لگے ۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔ جنگجؤں کی طاقت کا اندازہ لگائیے ۔ جدید ہتھیاروں سے لیس پانچ لاکھ کی فوج سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ سیکورٹی چوکی پر فوڈ سپلائی دینے کے لئے نکلنے سے پہلے اطلاع دی جاے ۔
اس سے پہلے کہ یہ جنگجو ملک پر قابض ہو جائیں حکومت پاکستان کو سیاسی دشمنیاں پس پشت ڈالتے ہوے یکجا ہوکر ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنے میں پہل کرنی چائیے ۔ ورنہ عدم استحکام سے جنگجو اور جنگجؤں کے ملک کے اندر موجود لاکھوں ہمدرد فاہدہ اٹھا کر اپنا راستہ ہموار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔