ڈھاکہ (عالمی خبر رساں ادارہ) – بنگلہ دیش کے معروف طلبہ لیڈر ناہد الاسلام نے حکومت کو سخت الفاظ میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پرانے استحصالی نظام اور طاقت کے کھیل کو ختم نہ کیا گیا، تو ملک کو ایک نئی بغاوت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ناہد الاسلام نے یہ بیان نارائن گنج میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے دیا، جس میں ہزاروں طلبہ اور نوجوانوں نے شرکت کی۔ ان کا کہنا تھا:“ہم نے پرانا کھیل دیکھ لیا ہے — مافیاز، کرپشن، خاندانوں کی اجارہ داری اور عوام کی آواز کو دبانے والی پالیسیز۔ اگر یہی سب کچھ جاری رہا تو نئی تحریک اب مزید خاموش نہیں بیٹھے گی۔”
اسی ہفتے 16 جولائی کو بنگلہ دیش کے ضلع گوالگانج میں نیشنل سٹیزنز پارٹی (NCP) کے زیراہتمام نکالے گئے طلبہ مارچ کے دوران پولیس اور مظاہرین میں شدید جھڑپیں ہوئیں، جن میں کم از کم چار افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔پولیس کا مؤقف ہے کہ مظاہرین نے سرکاری عمارات کو نشانہ بنایا، جس پر ردعمل دیا گیا۔ تاہم ناہد الاسلام اور دیگر قائدین نے الزام عائد کیا کہ پولیس نے پرامن مظاہرین پر طاقت کا بے جا استعمال کیا۔طلبہ تحریک سے جنم لینے والی نیشنل سٹیزنز پارٹی (NCP) نے رواں سال مارچ میں باضابطہ طور پر سیاسی جماعت کی حیثیت اختیار کی۔ ناہد الاسلام اس کے کنوینر ہیں۔ پارٹی کا مقصد "دوسری جمہوریہ” کی بنیاد رکھنا اور 1972 کے آئین میں اصلاحات کے ذریعے بنگلہ دیش میں ایک شفاف، جدید اور نوجوان دوست سیاسی نظام قائم کرنا ہے۔گوالگانج واقعے کے بعد ناہد الاسلام نے حکومت کو 24 گھنٹوں کا الٹی میٹم دیا ہے کہ وہ ذمہ دار اہلکاروں کو معطل کرے ورنہ احتجاج کا دائرہ بڑھایا جائے گا۔
ادھر عارضی حکومت کے سربراہ اور نوبل انعام یافتہ محمد یونس نے جھڑپوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے غیر جانبدار انکوائری کا اعلان کیا ہے۔
