کراچی (انٹرنیشنل کرسپونڈنٹ) — پاکستان میں زرعی شعبہ ایک نئے بحران سے دوچار ہے، جہاں کسان تنظیموں نے حکومت کی جانب سے گندم کی سرکاری قیمت کے عدم تعین پر سخت احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔ کسان اتحاد اور سندھ آبادگار اتحاد نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگست میں ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کریں گے جس کا آغاز 11 اگست کو پنجاب کے شہر قصور سے ہوگا، جبکہ 20 اگست کو سندھ کے شہر حیدرآباد میں مظاہرہ کیا جائے گا۔کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کسان اتحاد کے چیئرمین خالد حسین باٹھ اور سندھ آبادگار اتحاد کے صدر زبیر تالپور نے کہا کہ گندم کی کاشت سے قبل ہی احتجاجی تحریک اس بات کا عندیہ ہے کہ موجودہ حکومتی پالیسیوں سے کسان طبقہ شدید طور پر متاثر ہو رہا ہے۔رہنماؤں کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو برسوں میں گندم کی کاشت پر فی من لاگت 4,000 روپے سے تجاوز کر گئی ہے، جبکہ حکومت کسانوں سے صرف 2,200 روپے فی من کے حساب سے خریداری کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ معاشی ناانصافی ہے جس سے دیہی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔
کسان رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ ان کی تحریک غیر سیاسی ہے اور ان کا مقصد صرف اور صرف کسانوں کے حقوق کا تحفظ اور زرعی شعبے کی بقا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت چاہے تو وہ اپنے مالیاتی معاملات کا فارنزک آڈٹ کروانے کے لیے بھی تیار ہیں۔
یہ صورتحال پاکستان میں زرعی پالیسیوں پر بین الاقوامی سطح پر بھی سوالات کھڑے کر رہی ہے، کیونکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود اپنے کسانوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر یہ بحران حل نہ ہوا تو ملک کو مستقبل میں غذائی قلت اور بڑھتی ہوئی درآمدات جیسے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا