عراقچی نے اس سے قبل کہا تھا کہ امریکہ نے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے ایک بہت بڑی سرخ لکیر عبور کر لی ہے۔ایران

ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ امریکی حملہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ "اسرائیلی حملوں کے پیچھے اصل محرک واشنگٹن ہے”۔ ان کا کہنا تھا کہ "امریکہ نے اس وقت میدان میں براہ راست مداخلت کی جب اس نے اسرائیل کی ناکامی کو دیکھا”۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ اقدام واضح طور پر ثابت کرتا ہے کہ "امریکہ ہی ان تمام جارحانہ کارروائیوں کا اصل ذمے دار ہے جو صہیونی ریاست اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف انجام دے رہی ہے”۔
پزشکیان نے واضح کیا کہ اگرچہ ابتدا میں امریکیوں نے اپنا کردار چھپانے کی کوشش کی، لیکن ایرانی مسلح افواج کے فیصلہ کن اور مؤثر جواب کے بعد، اور اسرائیلی کمزوری کو دیکھ کر، امریکہ کو بالآخر کھل کر میدان میں اترنا پڑا۔
ایرانی صدر کے مطابق صہیونی ریاست کا ایران پر حملہ، اگرچہ اس میں چند کمانڈروں، سائنس دانوں اور عام شہریوں کی شہادت اور نقصانات شامل ہیں، مگر یہ واقعہ تمام اندرونی اختلافات کو پسِ پشت ڈالنے اور عوامی توانائیوں کو بروئے کار لانے کی ترغیب ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ایرانی عوام نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے وطن کی سرزمین اور خود مختاری کے دفاع کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔
اس سے قبل ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اتوار کو استنبول میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ تہران امریکی حملوں کی سختی سے مذمت کرتا ہے اور انھیں بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی سمجھتا ہے۔ یہ بیان اس وقت آیا جب امریکہ نے ہفتے کی شب فردو، اصفہان اور نطنز میں ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا۔
عراقچی نے کہا کہ ایران اپنی خود مختاری اور عوام کے دفاع کے لیے پرعزم ہے، اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نہ صرف ایران بلکہ اپنے ملک کو بھی دھوکہ دیا ہے۔ ان کے مطابق امریکہ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے ایک بہت بڑی "سرخ لکیر” عبور کی ہے، اور ایران کا جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے نکلنے کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے بتایا کہ تنصیبات کے نقصانات کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور ایرانی مسلح افواج مکمل ہائی الرٹ پر ہیں۔ آبنائے ہرمز بند کرنے کے سوال پر عراقچی نے کہا "تمام اختیارات میز پر ہیں”۔
ایرانی وزیر خارجہ نے عالمی جوہری توانائی ایجنسی IAEA کے بورڈ آف گورنرز سے مطالبہ کیا کہ وہ ان حملوں کی مذمت کرے۔ انھوں نے کہا کہ ایران اپنی سلامتی، مفادات اور عوام کے دفاع کے لیے تمام آپشنز محفوظ رکھتا ہے۔
اسی سے قبل عراقچی نے امریکہ اور اس کی اتحادی اسرائیل پر "سفارت کاری کو سبوتاژ” کرنے کا الزام عائد کیا تھا، اور سوشل میڈیا پر لکھا تھا "ایران مذاکرات کی میز پر کیسے واپس آئے، جب کہ وہ کبھی وہاں سے گیا ہی نہیں؟”
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ امریکی طیاروں نے ایران میں فردو، نطنز اور اصفہان کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان حملوں نے ان تینوں تنصیبات کو "مکمل طور پر تباہ” کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے خبردار کیا کہ اگر تہران نے امن کا راستہ نہ اپنایا یا جواب دینے کی کوشش کی، تو مزید سخت حملے کیے جائیں گے۔
وائٹ ہاؤس سے اپنے ٹیلی وژنی خطاب میں، جس میں انھوں نے اپنی افواج کو اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں شامل کرنے کا اعلان کیا، ٹرمپ نے امریکی حملوں کو "شان دار فوجی کامیابی” قرار دیا۔