تہران / واشنگٹن — مشرق وسطیٰ میں ایک نیا بحران جنم لیتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے جب امریکی افواج نے ایران کے جنوبی علاقے پر فضائی حملہ کیا۔ امریکی وزارت دفاع نے اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بیان دیا کہ یہ کارروائی ایران کی جانب سے عراق اور شام میں موجود امریکی اڈوں پر مسلسل ڈرون حملوں کے جواب میں کی گئی ہے۔
حملے کی تفصیل:
امریکی افواج نے یہ حملہ پیر کی شب 2:30 بجے (مقامی وقت کے مطابق) کیا۔ ذرائع کے مطابق، یہ حملہ ایران کے صوبہ ہرمزگان کے بندرگاہی علاقے بندر عباس کے قریب واقع ایک فوجی کمپلیکس پر کیا گیا، جہاں امریکہ کے بقول ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس ڈرون اور میزائلوں کے تجربات کر رہی تھی۔
حملے میں متعدد میزائل داغے گئے جن میں سے کچھ GBU-39 اور Tomahawk طرز کے بتائے جاتے ہیں۔ ابتدائی رپورٹس کے مطابق، حملے میں 11 افراد ہلاک اور 27 زخمی ہوئے جن میں زیادہ تر ایرانی فوجی شامل ہیں۔
امریکی مؤقف:
امریکی وزیر دفاع نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں بتایا:
"یہ حملہ دفاعی نوعیت کا تھا۔ ایران کے اقدامات خطے میں استحکام کے لیے خطرہ بن رہے تھے، اور ہم اپنے اہلکاروں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گے۔”
ایران کا ردعمل:
ایرانی وزارت خارجہ نے حملے کو "جارحیت اور عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی” قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست دی ہے۔ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے بیان میں کہا:
"امریکہ نے ایک بار پھر اپنی دہشت گردانہ فطرت ظاہر کی ہے۔ ایران اس حملے کا بھرپور جواب دے گا۔”
علاقائی ردعمل اور ممکنہ اثرات:
- عراق میں امریکی سفارت خانہ بند کر دیا گیا ہے۔
- شام میں امریکی فضائیہ نے الرٹ جاری کیا ہے۔
- اسرائیل نے اپنی فوج کو مکمل جنگی تیاری میں ڈال دیا ہے۔
- روس اور چین نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے امریکہ کو کشیدگی کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
عالمی ردعمل:
- اقوام متحدہ نے دونوں ممالک سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔
- یورپی یونین نے بیان دیا ہے کہ "مذاکرات کا دروازہ بند نہیں ہونا چاہیے”۔