تہران کی پارلیمنٹ کے ایوان میں غیر معمولی سنّاٹا تھا۔ کچھ روز پہلے امریکی اسٹیلتھ طیاروں نے ایران کی جوہری تنصیبات پر کاری ضربیں لگائیں، اور اس کے بعد پورے ملک میں ایک غیر یقینی فضا قائم ہو گئی۔ ایوان میں موجود ہر رکن جانتا تھا کہ آج کا دن معمول کا دن نہیں ہے۔ ایک تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے۔
اسی کشیدہ ماحول میں، ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے قرارداد پیش کی—جس میں تجویز دی گئی تھی کہ آبنائے ہُرمز، جو دنیا کی سب سے اہم سمندری گزرگاہوں میں شمار ہوتی ہے، فوری طور پر بند کر دی جائے۔ یہ وہی گزرگاہ ہے جہاں سے روزانہ بیس فیصد عالمی تیل کی ترسیل ہوتی ہے۔ جیسے ہی قرارداد پیش ہوئی، کمرے میں ایک لمحے کے لیے سناٹا طاری ہوا، اور پھر ایک کے بعد ایک رکن اپنی نشست سے اٹھ کر حمایت میں بولتا گیا۔
بحث طویل نہ ہوئی۔ تمام ارکان جانتے تھے کہ یہ محض ایک قرارداد نہیں، بلکہ قومی خودمختاری کا مسئلہ ہے۔ امریکہ نے ایرانی سرزمین پر حملہ کیا تھا، اور جواب دینا اب ایک قومی فرض بن چکا تھا۔ بالآخر، مکمل اتفاق رائے سے پارلیمنٹ نے آبنائے ہُرمز بند کرنے کی منظوری دے دی۔
یہ اعلان دنیا کے لیے ایک دھماکے سے کم نہ تھا۔ توانائی کی عالمی منڈی میں ہلچل مچ گئی۔ تیل کی قیمتیں لمحہ بہ لمحہ بڑھنے لگیں۔ جاپان، چین، انڈیا جیسے ممالک، جو خلیج فارس کے راستے تیل درآمد کرتے ہیں، تشویش میں مبتلا ہو گئے۔ یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ نے فوری طور پر ایران سے تحمل سے کام لینے کی اپیل کی۔ مگر تہران اب غصے میں تھا، اور صرف اپیلیں اس غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ناکافی تھیں۔
ایرانی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کا اجلاس بلایا گیا۔ اگرچہ پارلیمنٹ کا فیصلہ قانونی حیثیت نہیں رکھتا جب تک یہ کونسل اسے نافذ نہ کرے، لیکن قوم کی فضا کچھ ایسی ہو چکی تھی کہ ہر فیصلہ اب جذبات کے تابع ہو رہا تھا۔
ایران کے سرکاری میڈیا نے عوام کو تیار رہنے کا پیغام دیا۔ سپاہِ پاسداران انقلاب کے ترجمان نے اعلان کیا کہ اگر عالمی قوتیں، خاص طور پر امریکہ، ایران کے فیصلے میں مداخلت کریں گی، تو ایران نہ صرف دفاع کرے گا بلکہ "جواب ایسا ہوگا جو دنیا یاد رکھے گی۔”
دوسری جانب، امریکی حکام نے اس اقدام کو کھلی معاشی جارحیت قرار دیا۔ پینٹاگون کے ترجمان نے کہا کہ اگر آبنائے ہُرمز کو بند کیا گیا تو امریکہ اس گزرگاہ کو "ہر قیمت پر کھولنے کے لیے تیار ہے”—اور اس کے لیے فوجی طاقت کا استعمال بھی خارج از امکان نہیں۔
اب دنیا کی نگاہیں خلیج فارس کے نیلے پانیوں پر مرکوز ہیں۔ کیا ایران اپنے فیصلے پر عمل درآمد کرے گا؟ کیا امریکہ فوجی ردعمل دے گا؟ کیا عالمی طاقتیں اس بڑھتے ہوئے بحران کو روکنے میں کامیاب ہو پائیں گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب آنے والے چند دنوں، شاید گھنٹوں، میں سامنے آ جائے گا۔
فی الحال، تہران کے ایوان میں وہ دن ایک نشان بن چکا ہے۔ وہ دن جب ایران نے اعلان کیا کہ "اگر ہماری سرزمین پر حملہ ہوگا، تو سمندر بھی خاموش نہیں رہیں گے۔”