بین الاقوامی سیاسی منظرنامے میں ایک نیا طوفان اس وقت اٹھا جب امریکہ نے ایران کی تین حساس اور انتہائی اہم جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ یہ حملہ نہ صرف عسکری لحاظ سے چونکا دینے والا تھا بلکہ اس کے سیاسی، معاشی اور سفارتی اثرات بھی عالمی سطح پر شدت کے ساتھ محسوس کیے گئے۔ ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کی یہ نئی لہر ایک طویل عرصے سے دباؤ میں چھپی ہوئی بارود کی مانند تھی جو اب پوری شدت سے پھٹ پڑی ہے۔
ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملہ اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ واشنگٹن ایران کے جوہری پروگرام کو کسی بھی قیمت پر آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے پرعزم ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کا مؤقف ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے "خطرناک قریب” پہنچ چکا تھا اور یہ حملہ ایک "پیشگی حفاظتی اقدام” تھا۔ ایران نے اس دعوے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا پروگرام مکمل طور پر پرامن ہے اور یہ اقدام بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
ایران کی جانب سے آبنائے ہُرمز کی ممکنہ بندش کی دھمکی نہایت سنجیدہ ہے کیونکہ اس گذرگاہ سے دنیا کے تقریباً 20 فیصد خام تیل کی ترسیل ہوتی ہے۔ اس کا بند ہونا عالمی توانائی مارکیٹ میں ایک زلزلے کے مترادف ہوگا۔ تیل کی قیمتیں فوری طور پر بلند ہو چکی ہیں، اور یورپ، چین اور جنوبی ایشیائی ممالک میں ایندھن کی سپلائی پر دباؤ بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ ایسے میں عالمی معیشت، جو پہلے ہی مہنگائی اور سست روی کا شکار ہے، ایک نئی آزمائش کی طرف بڑھ سکتی ہے۔
ان بدلتے حالات میں ایران کی روس کے ساتھ آج کی ملاقات غیر معمولی اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ ایرانی وزیرِ خارجہ کی ماسکو آمد، اور صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات اس بات کا پیغام ہے کہ ایران عالمی تنہائی سے نکلنے کے لیے مشرقی بلاک کی جانب ہاتھ بڑھا رہا ہے۔ روس نے نہ صرف اس حملے کی سخت مذمت کی بلکہ ایران کے ساتھ "اسٹریٹیجک ہم آہنگی” کو مزید گہرا کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے۔ اگرچہ روس فی الحال کسی عسکری تعاون کے اعلان سے گریزاں ہے، لیکن سفارتی اور تکنیکی سطح پر وہ ایران کو زیادہ قریب لانے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ ملاقات دراصل ایک وسیع تر عالمی تبدیلی کی علامت بھی ہو سکتی ہے، جس میں دنیا کے طاقت کے مراکز ایک مرتبہ پھر مشرق و مغرب میں منقسم ہوتے جا رہے ہیں۔ چین، روس اور ایران کا ابھرتا ہوا بلاک ممکنہ طور پر مغربی طاقتوں کے تسلط کو چیلنج کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس اتحاد میں اقتصادی تعاون، دفاعی معاہدات، اور توانائی کی تجارت کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں، جو عالمی نظام کو نئے خطوط پر استوار کر سکتی ہیں۔
ایران نے حالیہ برسوں میں اپنی خارجہ پالیسی کو "Look East” کی پالیسی کے تحت چین اور روس کی جانب منتقل کیا ہے، اور یہ موجودہ حالات اس حکمت عملی کے درست ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ تاہم، اس نئے اتحاد میں ایران کی پوزیشن نسبتاً کمزور ہے کیونکہ روس اور چین کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں اور وہ ایران کو مکمل دفاعی تحفظ دینے سے گریز کر سکتے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیل اس صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور اس نے نہ صرف اس امریکی اقدام کی حمایت کی ہے بلکہ ممکنہ طور پر خفیہ معلومات بھی فراہم کی ہوں گی۔ اسرائیل کے نزدیک ایران کا جوہری پروگرام ایک "وجودی خطرہ” ہے، اور وہ کسی بھی قیمت پر ایران کو جوہری طاقت بننے سے روکنا چاہتا ہے۔ خلیجی ممالک، خصوصاً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، خاموش مگر چوکس ہیں۔ وہ کسی کھلی جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہتے مگر اپنے دفاعی نظام کو فعال کر چکے ہیں۔
ان تمام حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا دنیا ایک نئی بڑی جنگ کے دہانے پر ہے یا یہ صرف سفارتی بازو آزمائی کی ایک اعلیٰ مثال ہے؟ موجودہ تناظر میں دونوں امکانات برابر نظر آتے ہیں۔ اگر ایران بدلہ لیتا ہے تو امریکہ اور اس کے اتحادی مزید کارروائیاں کریں گے۔ اگر ایران محتاط رہتا ہے تو اسے سفارتی سطح پر فائدہ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اگر روس کھل کر ایران کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے تو مغرب کی جانب سے پابندیوں اور سیاسی تناؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
آج کی دنیا میں جنگ صرف میزائلوں اور بموں کے ذریعے نہیں لڑی جاتی، بلکہ سفارت، ٹیکنالوجی، معیشت، اور پراکسی نیٹ ورکس کے ذریعے بھی لڑی جاتی ہے۔ ایران ان تمام محاذوں پر سرگرم ہے، اور اگرچہ اسے ایک بڑا دھچکہ پہنچا ہے، مگر اس کی مزاحمتی پالیسی بدستور قائم ہے۔ امریکہ نے حملہ کر کے وقتی برتری حاصل کر لی ہے، مگر اس کے نتائج طویل المدتی اور غیر متوقع ہو سکتے ہیں۔