برلن،نمائندہ وائس آف جرمنی
جرمنی نے افغانستان کے لیے جبری ملک بدری کا عمل دوبارہ شروع کر دیا ہے، جو چانسلر فریڈرِش مرز کی حکومت کے تحت ایک اہم پالیسی تبدیلی ہے۔ جرمن وزارت داخلہ کے مطابق ابتدائی طور پر جرائم پیشہ افراد اور سیکیورٹی کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے افراد کو واپس بھیجا جا رہا ہے۔
یہ اقدام 2021 کے بعد پہلی بار کیا گیا ہے، جب طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد یہ عمل روک دیا گیا تھا۔ وزارت داخلہ نے وضاحت کی ہے کہ نئی پالیسی کا مقصد "عوامی تحفظ اور قومی سلامتی کو یقینی بنانا” ہے، اور ملک بدری کا اطلاق صرف پرتشدد مجرموں اور انتہا پسند عناصر پر ہوگا۔اس فیصلے پر جرمنی میں شدید بحث جاری ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور پناہ گزینوں کے تحفظ کے اداروں نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں اب بھی سیکیورٹی کی صورتِ حال غیر مستحکم ہے، اور جبری واپسی سے متاثرہ افراد کی جان کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ تاہم حکومت کا مؤقف ہے کہ جرمن شہریوں کا تحفظ اولین ترجیح ہے۔وزارت داخلہ کے مطابق آئندہ ہفتوں میں مزید ملک بدری کی پروازیں متوقع ہیں۔