تحریر محمد سلیم
راولپنڈی پولیس، خصوصاً تھانہ نیو ٹاؤن، ان دنوں ایک سنگین الزام کی زد میں ہے — قلم کی توہین کا الزام۔ جب ایک ریاستی ادارہ خود قانون شکن بن جائے، تو سچ بولنا جرم بن جاتا ہے، اور صحافت خطرہ۔
حال ہی میں راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس (RIUJ) کے صدر طارق ورک پر ایس ایچ او طیب ظہیر بیگ کی جانب سے مبینہ تشدد، حبسِ بےجا اور تذلیل کا واقعہ پیش آیا۔ وہ تھانے میں اپنے صحافی ساتھی نعیم منہاس کی حمایت میں پُرامن طور پر موجود تھے جن کے خلاف بظاہر ایک انتقامی ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔لیکن یہ سوال اب صرف مقامی نہیں رہا۔ یہ ایک بین الاقوامی تشویش میں تبدیل ہو چکا ہے۔
اقوام متحدہ، رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز، کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس، اور عالمی صحافتی تنظیمیں پاکستان میں صحافیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے ریاستی جبر پر پہلے ہی تشویش کا اظہار کر چکی ہیں۔
ایسے واقعات نہ صرف پاکستان کی آزادیٔ اظہار کو متاثر کرتے ہیں بلکہ عالمی سطح پر ملک کی ساکھ، جمہوری رویوں اور انسانی حقوق کے ریکارڈ پر بھی سوالیہ نشان بنتے جا رہے ہیں۔
جب صحافت کو دبایا جاتا ہے، تو اس کی بازگشت صرف شہروں یا ٹی وی اسکرینوں تک محدود نہیں رہتی — وہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل، یورپی پارلیمنٹ، اور دیگر بین الاقوامی فورمز تک پہنچتی ہے۔ اور بدقسمتی سے، پاکستان کا نام "خطرناک ممالک برائے صحافی” کی فہرست میں نمایاں ہو جاتا ہے۔
تو سوال یہ ہے: کیا ہم ایک ایسا پاکستان چاہتے ہیں جہاں سچ بولنے کی قیمت تشدد، گرفتاری اور تذلیل ہو؟
احتجاج اب صرف طارق ورک یا نعیم منہاس کے لیے نہیں، یہ ہر اُس آواز کی بقا کی جنگ ہے جو سچ لکھتی ہے، بولتی ہے، اور عوام کے حق میں کھڑی ہوتی ہے۔ اگر آج صحافیوں کے خلاف ریاستی جبر کو چیلنج نہ کیا گیا، تو کل یہ خاموشی ہر شہری کے حقِ آزادیِ اظہار کو چھین سکتی ہے۔
حکومتِ پاکستان اور اداروں کو چاہیے کہ نہ صرف اس واقعے کی شفاف تحقیقات کریں بلکہ بین الاقوامی سطح پر یہ پیغام دیں کہ پاکستان آزادیٔ صحافت اور انسانی حقوق کے ساتھ کھڑا ہے، ان کے خلاف نہیں۔
قلم کو جھکانے کی کوششیں وقتی ہوتی ہیں، مگر سچ ہمیشہ تاریخ میں سر بلند لکھا جاتا ہے۔ اور دنیا بھر میں، جہاں کہیں بھی ایک صحافی کے ساتھ ظلم ہوتا ہے، وہ ظلم صرف ایک فرد پر نہیں بلکہ آزادی پر حملہ ہوتا ہے — جسے دنیا کبھی معاف نہیں کرتی۔