یروشلم (بین الاقوامی ذرائع) — اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی حکومت کو ایک بڑا سیاسی جھٹکا اس وقت لگا جب ان کی اتحادی جماعت یونائیٹڈ توراہ جوڈازم (یو ٹی جے) نے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ اس علیحدگی کے بعد نیتن یاہو کی مخلوط حکومت کنیسٹ (پارلیمنٹ) میں محض ایک نشست کی برتری پر قائم ہے، اور اس کا مستقبل انتہائی غیر یقینی صورت اختیار کر چکا ہے۔اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق، یو ٹی جے اور حکومت کے درمیان اختلافات کی اصل وجہ مذہبی طلبہ (الٹرا آرتھوڈوکس) کو فوجی سروس سے مستثنیٰ قرار دینے کا وہ متنازع بل ہے، جسے یو ٹی جے طویل عرصے سے قانونی حیثیت دلوانے کی کوشش کر رہی تھی۔
نیتن یاہو حکومت کی جانب سے بل کی منظوری میں تاخیر اور بعض شقوں پر اعتراضات کے بعد یو ٹی جے کے ایک رکن نے پہلے استعفیٰ دیا، جس کے بعد جماعت کے باقی 6 ارکان نے بھی حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی۔اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسٹ میں 120 نشستیں ہیں، جن میں اب نیتن یاہو اتحاد کے پاس صرف 61 نشستیں باقی رہ گئی ہیں—یعنی محض اکثریت سے ایک زیادہ۔ سیاسی ماہرین کے مطابق، اگر نیتن یاہو کو ایک اور اتحادی جماعت شاس پارٹی (Shas) کی حمایت کھونا پڑی تو ان کی حکومت فوراً ختم ہو سکتی ہے۔شاس پارٹی کے پاس 11 نشستیں ہیں، اور اس کے اراکین بھی حکومت کی بعض پالیسیوں سے ناخوش نظر آ رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، اگر شاس نے بھی حکومت سے لاتعلقی اختیار کی تو نیتن یاہو کو پارلیمانی اکثریت مکمل طور پر کھو دینی پڑے گی اور ملک کو قبل از وقت انتخابات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
