تحریر: (محمد سلیم )
امریکی ریاست ٹیکساس کے حالیہ سیلاب کی خبریں عالمی میڈیا کی شہ سرخیاں بن چکی ہیں، لیکن ان خبروں میں ایک واقعہ ایسا بھی ہے جو انسانی ہمت، فطرت کی طاقت اور ایک "زندہ بچ جانے والے لمحے” کی داستان سنا گیا۔ یہ کہانی ہے ایک 22 سالہ لڑکی کی، جو سیلابی ریلے میں بہہ گئی، مگر قدرت کے نظام نے اس کے لیے ایک نجات دہندہ بچا رکھا تھا — ایک درخت۔
لڑکی اپنی فیملی کے ساتھ پکنک منانے گئی تھی۔ قدرتی مناظر، ہنسی خوشی کا ماحول اور شاید بہت سی یادیں، لیکن اچانک پانی کا شور اور ایک طوفانی ریلا سب کچھ بہا لے گیا۔ لڑکی کی فیملی نے گاڑی کی طرف دوڑ لگائی، لیکن سیلابی دریا انہیں بھی بہا لے گیا۔ لڑکی خود بھی بہتے بہتے دس کلومیٹر دور جا پہنچی، جہاں ایک مضبوط درخت نے اسے تھام لیا۔
تصور کیجیے، بہتا پانی، زخمی جسم، ٹوٹا خیمہ اور تنہا چیختی لڑکی — اور وہ درخت، جو خود بھی پانی کی مار سہ رہا تھا، مگر اکھڑا نہیں۔ وہ صرف ایک درخت نہیں، زندگی کی لکیر بن گیا۔
اس منظر میں ایک اور کردار داخل ہوتا ہے — ایک اجنبی شخص، جو چیخوں کو سن کر رکا، اسے دیکھا اور بغیر وقت ضائع کیے مدد کے لیے بھاگا۔ ایمرجنسی کال کی، ریسکیو ٹیم کو ڈھونڈا اور لڑکی کی جان بچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ریسکیو ٹیم پہنچی تو پانی کی سطح نیچے جا چکی تھی۔ لڑکی نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے درخت سے کشتی میں چھلانگ لگائی — زخمی ضرور ہوئی، مگر زندہ رہی۔
لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔
یہ واقعہ ہمیں بہت کچھ سکھاتا ہے۔ پہلا سبق: درخت صرف آکسیجن نہیں دیتے، وہ زندگی بچاتے ہیں۔ اگر وہ درخت نہ ہوتا تو شاید آج یہ واقعہ ایک موت کی خبر ہوتا۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ پاکستان میں روزانہ ہزاروں درخت کاٹے جا رہے ہیں؟ جنگلات کی کٹائی جاری ہے اور پھر ہم سیلاب، زمین کٹاؤ، اور گرمی کی شدت پر حیران ہوتے ہیں۔انسانی جذبہ اور ہمدردی اب بھی زندہ ہے۔ وہ شخص، جس نے مدد کے لیے بھاگ دوڑ کی، وہ فرشتہ صفت انسان نہ ہوتا تو شاید ریسکیو لیٹ ہو جاتا۔ اور شاید، آج ہم صرف ایک لاش کی بات کر رہے ہوتے۔قدرت کے آگے انسان بے بس ہے، لیکن ہم خود کو سنوار سکتے ہیں۔ ہم منصوبہ بندی کر سکتے ہیں، ماحولیاتی تبدیلیوں کو سنجیدگی سے لے سکتے ہیں، اور قدرتی آفات کے لیے تیاری کر سکتے ہیں۔
ٹیکساس کا یہ واقعہ ایک عالمی خبر ضرور ہے، لیکن اس میں ہمارے لیے ایک آئینہ ہے۔ ہمیں خود سے پوچھنا ہے — کیا ہمارے شہروں میں، ہمارے دیہات میں، ہمارے دلوں میں کوئی ایسا درخت بچا ہے جو زندگی کو تھام سکے؟
یا ہم سب بہہ رہے ہیں — شور میں، لاپروائی میں، اور خاموشی میں؟