گزشتہ چند ہفتوں سے ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی نے خطے کو ایک ممکنہ تباہ کن جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا۔ ایک طرف ایران نے اسرائیلی عسکری اہداف کو نشانہ بنایا تو دوسری جانب اسرائیل نے ایران کے کئی اہم ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے۔ غزہ، لبنان اور شام کی سرحدوں پر بھی تناؤ کا ماحول شدید تر ہو گیا۔ تاہم، گزشتہ شب ایک غیر متوقع موڑ آیا جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک پریس کانفرنس میں ایران اور اسرائیل کے مابین "مکمل جنگ بندی” کے اعلان کی تصدیق کی۔
یہ اعلان ایک ایسے وقت میں آیا جب دونوں ممالک مسلسل ایک دوسرے پر حملوں کے الزامات لگا رہے تھے اور دنیا ایک وسیع تر مشرقِ وسطیٰ جنگ کے خدشے میں مبتلا تھی۔ ٹرمپ نے کہا کہ یہ جنگ بندی مرحلہ وار نافذ کی جائے گی اور دونوں فریق اس بات پر متفق ہوئے ہیں کہ براہ راست حملوں کو فوری طور پر روکا جائے۔ قطر نے اس معاہدے میں ثالثی کا کردار ادا کیا، جبکہ امریکی اور یورپی سفارتی حلقے بھی پس پردہ مذاکرات میں شامل رہے۔
اس اعلان کے بعد ابتدائی ردعمل کافی دلچسپ رہا۔ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے فوری طور پر جنگ بندی کے اعلان کی حمایت کی اور کہا کہ اسرائیل نے اپنے "دفاعی اہداف” حاصل کر لیے ہیں۔ انہوں نے عندیہ دیا کہ اسرائیل کسی بھی خلاف ورزی کا بھرپور جواب دے گا، لیکن فی الوقت وہ جنگ بندی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب ایرانی وزارتِ خارجہ نے اس اعلان کو ایک "مشروط تعطل” قرار دیا، اور واضح کیا کہ مکمل جنگ بندی صرف اسی صورت ممکن ہے جب اسرائیل اپنی جارحیت روک دے۔ ایران نے جنگ بندی کی سرکاری تصدیق کرنے سے گریز کیا اور اس بات پر زور دیا کہ "یکطرفہ طور پر خاموشی امن نہیں لاتی”۔
آج دوپہر تک کی صورتحال میں جنگ بندی کے باوجود کئی بار فائرنگ اور میزائل حملوں کے الزامات سامنے آئے۔ اسرائیلی ذرائع نے دعویٰ کیا کہ ایران نے چند میزائل داغے، جنہیں اسرائیلی دفاعی نظام نے ناکام بنایا، تاہم ایران نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی۔ ایرانی فوجی ذرائع نے بیان دیا کہ "یہ پروپیگنڈہ ہے تاکہ جنگ بندی کو ناکام بنایا جا سکے”۔
عالمی سطح پر اس جنگ بندی کو قدرے اطمینان سے دیکھا گیا۔ امریکی اسٹاک مارکیٹس میں بہتری آئی، جبکہ تیل کی قیمتوں میں کمی دیکھی گئی جو خطے میں استحکام کی علامت سمجھی جا رہی ہے۔ تاہم، غزہ میں حالات بدستور نازک ہیں۔ وہاں یرغمال بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کے اہل خانہ نے احتجاج کرتے ہوئے اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے عزیزوں کی بازیابی کو اولین ترجیح دی جائے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی دونوں فریقوں سے مطالبہ کیا کہ جنگ بندی کو مستقل امن میں تبدیل کرنے کے لیے کوشش کی جائے، اور عام شہریوں کی زندگیوں کو مزید تباہ ہونے سے بچایا جائے۔
اگرچہ یہ جنگ بندی ایک اہم پیش رفت ہے، لیکن مبصرین اسے محض "عارضی سکون” قرار دے رہے ہیں۔ اسرائیل اور ایران کے درمیان بداعتمادی کی جو دیوار ہے، وہ کسی ایک اعلامیہ سے نہیں گر سکتی۔ خاص طور پر اس وقت جب دونوں اطراف سے سخت بیانات اور اندرونی سیاسی دباؤ بھی اس عمل کو غیر مستحکم کر سکتے ہیں۔
اس وقت خطہ جس نازک موڑ پر کھڑا ہے، وہاں جنگ بندی کو مستقل امن میں بدلنے کے لیے عالمی قوتوں کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ بصورتِ دیگر یہ امن عارضی ثابت ہو گا اور خطہ ایک بار پھر تباہی کے دہانے پر آ کھڑا ہو گا۔