ایران سے متعلق خفیہ معلومات کے گرد جاری ایک شدید سیاسی معرکے کے دوران، توقع ہے کہ وائٹ ہاؤس قومی سلامتی کے چار اعلیٰ ترین حکام کو … کانگریس کے ارکان کو ایک خفیہ بریفنگ دینے کے لیے بھیجے گا۔ یہ بات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے ایک سینئر عہدے دار نے بتائی۔
ان حکام میں وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ، وزیر خارجہ مارکو روبیو، سی آئی اے کے ڈائریکٹر جون ریٹکلف، اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل ڈین کین شامل ہیں۔ یہ بات امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے انتظامیہ کے حکام کے حوالے سے بتائی۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ قومی انٹیلی جنس کی ڈائریکٹر، تلسی گیبرڈ، اس بریفنگ سے غیر حاضر ہوں گی، حالانکہ مارچ میں دی گئی اپنی شہادت میں انھوں نے کہا تھا کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا اندازہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں بنا رہا۔
تلسی گیبرڈ کی غیر موجودگی
صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے ایک سینئر عہدے دار نے، جنھوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی … بتایا کہ "ریٹکلف انٹیلی جنس کمیونٹی کی نمائندگی کریں گے”، اور یہ بیان گیبرڈ کی غیر موجودگی کی طرف اشارہ تھا۔
انھوں نے مزید کہا "میڈیا اس معاملے کو اصل حقیقت سے ہٹا کر پیش کر رہا ہے”۔
امریکی حکام اور وائٹ ہاؤس کے قریبی ذرائع نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ صدر ٹرمپ نے تلسی گیبرڈ کی ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق تشخیص کو "غلط” قرار دیا ہے، اور انھیں ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے دوران امریکہ کے کردار کی قیادت سے بڑی حد تک الگ کر دیا ہے۔ اگرچہ وائٹ ہاؤس کے حکام اب بھی یہ کہتے ہیں کہ وہ ایک "اہم اور بنیادی کردار” ادا کر رہی ہیں۔
خفیہ معلومات کی شراکت پر پابندی
دوسری جانب، سینیٹ میں اقلیتی رہنما چارلس ای. شومر نے بدھ کے روز وائٹ ہاؤس سے مطالبہ کیا کہ وہ خفیہ معلومات کی شراکت پر عائد کردہ پابندی کو "فوراً واپس لے”۔
شومر نے سینیٹ کے فلور سے خطاب کرتے ہوئے کہا "انتظامیہ کو قومی سلامتی سے متعلق معاملات میں کانگریس سے چھپانے کا کوئی حق نہیں۔ سینیٹ کے ارکان کو ان معلومات تک رسائی کا پورا حق ہے، اور انتظامیہ قانونی طور پر پابند ہے کہ وہ کانگریس کو بیرونِ ملک پیش آنے والے واقعات سے مکمل آگاہ کرے”۔
امریکی خفیہ اداروں کی ابتدائی رپورٹ، جسے سب سے پہلے سی این این نے افشا کیا، اس کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات پر کیے گئے فضائی حملوں نے تہران کے پروگرام کو چند ماہ کے لیے ضرور مؤخر کر دیا ہے، مگر اسے مکمل طور پر تباہ نہیں کیا گیا۔
اس رپورٹ کے بعد سے ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس کے حکام نے اس تشخیص کی سختی سے مخالفت کی ہے، اور اصرار کیا ہے کہ B-2 بم بار طیاروں اور آبدوزوں سے داغے گئے ٹوماہاک میزائلوں نے اہداف کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔