ااسلام آباد ہائیکورٹ نے حالیہ دنوں میں وفاقی دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے، کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (CDA)، سے متعلق ایک نہایت اہم فیصلہ سنایا ہے جس نے ملک میں ادارہ جاتی خودمختاری، آئینی تقاضوں، اور حکومت کی انتظامی پالیسیوں کے درمیان توازن پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ عدالت نے حکومت کے ان اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا جن کے تحت سی ڈی اے کو تحلیل کرنے اور اس کے اختیارات کو دیگر اداروں یا منتخب بلدیاتی نمائندوں کو منتقل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی بنیاد 1960 کی دہائی میں رکھی گئی تھی تاکہ اسلام آباد کی منصوبہ بندی، تعمیر و ترقی، اور نگرانی کا ذمہ ایک مربوط ادارے کے سپرد ہو۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ مختلف حکومتوں کی جانب سے اس ادارے کے اختیارات کو دیگر اداروں میں بانٹنے، یا اس کی ساخت کو تبدیل کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ خاص طور پر میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد (MCI) کے قیام کے بعد، سی ڈی اے کے کئی افعال اس نئے ادارے کو سونپ دیے گئے تھے۔ ان اقدامات کو شہریوں میں جمہوری نمائندگی بڑھانے کا جواز دے کر پیش کیا گیا، لیکن اس عمل میں آئینی و قانونی تقاضوں کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔
چند شہریوں اور سی ڈی اے کے ملازمین نے ان حکومتی اقدامات کو عدالت میں چیلنج کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ سی ڈی اے ایک آئینی حیثیت رکھنے والا ادارہ ہے، جس کی تحلیل یا اختیارات کی منتقلی صرف پارلیمانی منظوری کے ذریعے ممکن ہے، نہ کہ کسی صدارتی آرڈیننس یا حکومتی نوٹیفکیشن سے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ان دلائل کی روشنی میں تفصیلی سماعت کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے واضح کیا کہ سی ڈی اے کو تحلیل کرنے کا عمل غیر آئینی ہے، اور اس طرح کے فیصلے صرف پارلیمنٹ کی منظوری سے ہی نافذ العمل ہو سکتے ہیں۔
عدالت نے حکومت کو ہدایت کی کہ وہ کسی بھی قسم کے ادارہ جاتی انضمام، تحلیل یا اختیارات کی منتقلی سے قبل آئینی تقاضے پورے کرے، قانون سازی کے ذریعے فیصلے کرے اور شہری اداروں کی خودمختاری کو یقینی بنائے۔ عدالت کا یہ فیصلہ سی ڈی اے کے ملازمین اور شہریوں کے لیے ایک اطمینان بخش خبر تھی، جنہوں نے عدلیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے آئین کی بالادستی کی فتح قرار دیا۔
قانونی ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ نہ صرف سی ڈی اے بلکہ تمام وفاقی اداروں کے لیے ایک نظیر بنے گا، جو آئندہ حکومتوں کو ادارہ جاتی فیصلوں میں آئینی دائرہ اختیار کو نظرانداز کرنے سے روکے گا۔ بعض سیاسی تجزیہ نگاروں نے اس فیصلے کو مرکزیت پسندی کے رجحانات کے خلاف ایک توازن قرار دیا، جبکہ دیگر نے اسے عوامی نمائندگی کے عمل میں آئینی شفافیت کی جانب ایک قدم سمجھا۔
یہ فیصلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اداروں کی تحلیل یا اختیارات کی منتقلی کوئی معمولی انتظامی فیصلہ نہیں بلکہ ایک ایسا آئینی معاملہ ہے جس پر پارلیمانی بحث اور قانونی منظوری لازم ہے۔ حکومت پر اب یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آئینی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے شہری اداروں میں اصلاحات لائے اور انتظامی اقدامات میں شفافیت اور قانونی طریقہ کار کو اولیت دے۔