پاکستان میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں اب روز کے معمولات کا حصہ بنتی جا رہی ہیں ۔ ایک شہری کے کیا حقوق ہیں ۔
انسان کس حد تک اپنی ذاتی زندگی میں ازاد ہے ۔ اس کا تصور محال ہوتا جا رہا ہے ۔ ہر کوئی دوسرے کے لئے اپنا فیصلہ صادر کرنا
اپنا حق سمجھنے لگا ہے ۔ قانون کے رکھوالے اور قانون نافذ کرنے والے قانون کی ایسی تشریح کرتے ہیں جس سے معاشرہ کے شرپسند لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔پاکستان میں محرم کے مہینہ میں اہل معاشرہ کی طرف سے پانی ،شربت کی سبیلیں لگانا اور کھانا تقسیم کرنا معمول کی بات ہے اور اس کو نیک اقدام گردانا جانتا ہے ۔ اس نیک کام کو بعض شرپسند لوگ فساد کے لئے استعمال کرتے ہیں اور حکومتی کارندے ان کے آلہ کار بن جاتے ہیں ۔ 6 جولائی کو تھانہ سیٹلائٹ ٹاؤن گوجرانوالہ میں ایک ایف آئی آر 1721/15 ایک احمدی کے خلاف کاٹی گئی ہے کہ اس نے محرم کے ایام میں بریانی کی دیگ تقسیم کی ہے ۔ دیگ تقسیم کرنا اسلامی شعار ہے اس طرح اس نے اپنے اپ کو مسلمان ظاہر کیا ہے ( شخص کا نام احتیاطا نہی لکھا جا رہا ) آفرین ہے علاقہ کے اے ایس آئی جناب شوکت علی پر جنہوں نے بریانی کی تقسیم کو بھی اسلامی بنا دیا ۔ پاکستان کے بازاروں میں اسلامی شہد تو بکتا دیکھا ہے اب چاول اور مرغی کو بھی اسلامی قبا پہنا دی جاے گی ۔ معاشرہ کو جہالت کی اس سطح پر لے جانے والی انتظامیہ اور سیاست دان جب ان کے اوپر ذرا ساری تکلیف کیا ان کی طبیعت کے خلاف بات ہو جاے تو یہ اس طرح آگ بگولا ہو جاتے ہیں کہ بس چلے تو ہرچیز تہس نہس کر دیں ۔ جبکہ اپنے ہی شہریوں کے خلاف ظلم وزیادتی پر ان کی زبانیں کنگ رہتی ہیں ۔
آج ہی پنجاب اسمبلی کے سپیکر ملک محمد احمد خان پر جب بات آئی تو آئین کو لپیٹنے کی بات پر اتر اے ۔ آج فلور دی ہاوس فرمایا
میں آئین کی دفعہ 62-63 کا مخالف ہوں ۔چاہیں تو ان کو آئین سے نکال کر پھینک دیں ۔ 35 سال سے جاری غنڈہ گردی کو بریک لگنی چائیے ۔ بحثیت پاکستانی شہری ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا لوگوں کے فرجوں سے قربانی گوشت زبردستی نکال کر لے جانا ۔گھر کے صحن میں بندھے بکرے کھول کر لے جانا ، بریانی کی تقسیم کو رکوا دینا ۔کیا یہ غنڈہ گردی نہی۔ اس غنڈہ گردی پر اگر آپ اسمبلی میں خاموش رہے تو اب آئین کی شق 62-63 پر واویلا کرنا بے معنی ہے ۔
