واشنگٹن (عالمی میڈیا ڈیسک) — سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر امریکی میڈیا کی سب سے بڑی سلطنتوں میں سے ایک کو نشانے پر لے لیا ہے۔ اس بار ان کا ہدف کوئی اور نہیں بلکہ معروف سرمایہ کار اور میڈیا ٹائیکون روپرٹ مرڈوک اور ان کا ادارہ وال اسٹریٹ جرنل ہے، جن پر ٹرمپ نے نہ صرف 10 ارب ڈالر کے ہرجانے کا مقدمہ دائر کر رکھا ہے، بلکہ اب ان کے ادارتی کنٹرول پر بھی سوال اٹھا دیے ہیں۔
یہ سنگین الزامات ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب ٹرمپ اور وال اسٹریٹ جرنل کے درمیان عدالتی تصفیے کی بات چیت بھی جاری ہے، جس نے امریکی میڈیا، قانونی اور سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
"کیا مرڈوک واقعی کنٹرول میں ہیں؟”
منگل کے روز اسکاٹ لینڈ سے واشنگٹن واپسی پر صدارتی طیارے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے حیرت انگیز بیان دیا:> "میں سمجھتا تھا کہ روپرٹ مرڈوک ہی اخبار کو کنٹرول کرتے ہیں — شاید وہ کرتے ہوں، شاید نہیں۔ وہ ہم سے کچھ کرنے کی بات کر رہے ہیں، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔”یہ بیان اس وقت آیا جب ٹرمپ نے ایک روز قبل مرڈوک کو عدالت میں گواہی کے لیے طلب کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
مقدمے کی اصل کہانی
ٹرمپ کی جانب سے دائر کردہ مقدمہ، "وال اسٹریٹ جرنل” کی اُس رپورٹ پر مبنی ہے جس میں کہا گیا کہ ٹرمپ نے 2003 میں جیفری ایپسٹین کو ایک "جنسی نوعیت کی مبارکباد” دی تھی۔ ٹرمپ نے اس پیغام کو "جعلی” قرار دیا اور کہا کہ اس رپورٹ سے ان کی شہرت اور ساکھ کو شدید نقصان پہنچا۔
ٹرمپ کے وکلا نے عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ مرڈوک کو آئندہ دو ہفتوں میں عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا جائے، تاکہ وہ اس رپورٹ کے پس منظر اور اشاعت کے فیصلے سے متعلق وضاحت دے سکیں۔
مرڈوک کے میڈیا نیٹ ورک میں "فوکس نیوز” اور "نیویارک پوسٹ” جیسے ادارے ٹرمپ نواز سمجھے جاتے ہیں، لیکن "وال اسٹریٹ جرنل” کے ادارتی صفحات ٹرمپ پر تنقید میں آزاد نظر آتے ہیں۔ حتیٰ کہ اخبار نے ماضی میں خود مرڈوک سے متعلق نازک خبریں بھی شائع کیں۔
ٹرمپ، جو میڈیا پر دباؤ ڈالنے کے لیے مشہور رہے ہیں، نے فروری میں وائٹ ہاؤس میں مرڈوک سے ملاقات کے دوران ادارتی آزادی پر براہ راست شکایت بھی کی تھی۔
"وال اسٹریٹ جرنل” کا مؤقف
اخبار کی مالک کمپنی ڈاؤ جونز نے بیان میں کہا ہے کہ:> "ہمیں جیفری ایپسٹین سے متعلق شائع کردہ رپورٹ پر مکمل یقین ہے، اور ہم عدالت میں بھرپور دفاع کریں گے۔”
میڈیا اداروں کے ساتھ سابقہ تصفیے۔اگر یہ مقدمہ عدالت سے باہر نمٹتا ہے، تو یہ پہلا موقع نہیں ہوگا۔ ٹرمپ اس سے پہلے بھی کئی بڑے میڈیا اداروں سے تصفیہ کر چکے ہیں:پیراماؤنٹ: پروگرام "60 منٹ” کے ایک حصے پر 16 ملین ڈالر کا تصفیہ۔ڈزنی / ABC نیوز: انٹرویو تنازع پر بھی 16 ملین ڈالر میں معاملہ طے پایا ۔
ٹرمپ کے اس اقدام کو امریکی میڈیا کی آزادی پر حملہ قرار دیا جا رہا ہے یا پھر ایک چالاک قانونی حکمتِ عملی؟ سوال یہ بھی ہے کہ اگر عدالت میں مرڈوک کو گواہی کے لیے بلایا گیا، تو اس کے اثرات صرف وال اسٹریٹ جرنل تک محدود نہیں رہیں گے — بلکہ یہ پوری مرڈوک ایمپائر کے لیے ایک سنگین لمحہ ہو گا۔