
برطانیہ کی پلاسٹک سرجن وکٹوریہ روز، جنہوں نے گزشتہ دو برسوں میں غزہ کے اسپتالوں میں کام کیا ہے،ایک مرتبہ پھرغزہ جانے کی خواہشمند ہیں۔ انہوں نے غزہ میں جنگی حالات کا سامنا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’غزہ کے حالات کیلئے لفظ ’’سنگین‘‘ استعمال کرنا ناکافی ہے۔ میں روزمرہ کی بنیاد پر وہاں کام کرتی تھی، میں پاس تقریباً ۱۰؍ مریضوں کی فہرست تھی جن میں سے ۶۰؍ فیصد کی عمر ۱۵؍ سال سے کم ہے۔ یہ چھوٹے بچے ہیں جو زندگی کو خطرہ میں ڈالنے والے زخموں کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ ان کے اعضاء ٹوٹ گئے ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جنہوں نے حملوں میں اپنے خاندان کے لوگوں کو کھو دیا ہے اور زندگی کو تبدیل کر دینے والے زخموں کو نہیں جھیل پارہے۔ ۲۰۱۹ء میں، میں نے چیریٹی آئیڈیلس جوائن کیا تھا، جو غزہ میں طبی بحران کے درمیان ڈاکٹروں کی مدد کرتا ہے۔ میں گزشتہ سال لوٹی ہوں۔ میں دوبارہ غزہ جانے کی خواہشمند ہوں کیونکہ غزہ سے تعلق رکھنے والے میرے ساتھی پلاسٹک سرجن، جنہوں نے لندن میں میرے ساتھ تربیت حاصل کی تھی، اکتوبر ۲۰۲۳ء میں جنگ کی شروعات سے لے کر اب تک صدمے کے پیچیدہ معاملات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہمارا مقصد غزہ میں آپریشن کیلئے اہم آلات فراہم کرنا اور اپنے ساتھ کام کرنے والے افراد کا ساتھ دینا ہے جو زیادہ کام کی وجہ سے صدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔ چونکہ جنگ جاری ہے، اسی لئے ہمارا تیسرا مقصد بھی ہے، گواہ بننا۔ میں نے غزہ کے یورپین غزہ اسپتال میں کام کیا تھا اور اگست میں ایک ماہ کیلئے واپس آگئی تھی اور پھر ناصر اسپتال میں کام کیا تھا۔ اس درمیان میں نے جو دیکھا وہ ناقابل قبول ہے۔ غزہ کی سڑکیں ناقابل شناخت تھیں، ہر جگہ مٹی اور دھول کے ڈھیر تھے۔ اس درجے کی تباہی کو صرف اسی صورت میں جائز قرار دیا جا سکتا ہے اگر غزہ کی ہر ایک عمارت کو حماس کے ڈھانچے کا حصہ سمجھا جائے۔”