ایک بار پھر وطن کے بیٹے شہید ہوئے۔ ایک بار پھر قومی پرچم کفن بن گیا،کتنی ماؤں کی گود آجڑ گئی کتنی بہنوں کے بھا ئی شہید ہوگئے۔ کتنے بچے اپنے باپ کی شفقت سے محروم ہوگئے۔کتنی بہنوں کی گود اجڑ گئی ۔آج شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں ہونے والا خودکش حملہ، نہ صرف ایک دہشت گردی کا واقعہ ہے، بلکہ یہ ریاستی حکمتِ عملی، داخلی سلامتی، اور خارجی تعلقات پر ایک کھلا سوال بھی ہے۔
اطلاعات کے مطابق، ایک بارود سے بھری گاڑی نے سیکیورٹی فورسز کے قافلے کو نشانہ بنایا، جس میں 13 سے 16 جوانوں کی شہادت کی اطلاعات ہیں۔ زخمیوں میں عورتیں، بچے اور مقامی شہری بھی شامل ہیں۔
یہ حملہ اس وقت ہوا جب فوجی جوان معمول کی گشت پر تھے۔ ایسی کاروائی کوئی اتفاقیہ واقعہ نہیں، بلکہ ایک منظم منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔طالبان کے ایک ذیلی گروہ نے مبینہ طور پر ذمہ داری قبول کر لی ہے، لیکن اصل سازش کی جڑیں کہاں ہیں؟
بارہا انتباہ کے باوجود افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ کیا ہماری سفارتی کوششیں ناکافی رہیں؟
ملک کے سب سے حساس خطے میں اس درجے کا حملہ ہونا ظاہر کرتا ہے کہ مقامی انٹیلی جنس اور سکیورٹی سسٹم میں بہتری کی گنجائش باقی ہے۔
ملک کے سب سے حساس خطے میں اس درجے کا حملہ ہونا ظاہر کرتا ہے کہ مقامی انٹیلی جنس اور سکیورٹی سسٹم میں بہتری کی گنجائش باقی ہے۔
یہ وقت ماتم کا ضرور ہے، لیکن ساتھ ہی عمل، ردعمل اور حکمت عملی کا بھی۔ ہم کب تک شہداء کے جنازے اٹھاتے رہیں گے؟ کب تک ہم صرف مذمت کرتے رہیں گے؟
فوج نے جوابی کاروائی شروع کر دی ہے، دہشت گردوں کے کئی ٹھکانے تباہ کیے جا چکے ہیں — مگر کیا یہ مستقل حل ہے؟
یہ الفاظ صرف چند جملوں کی ترتیب نہیں، بلکہ شہداء کے خون کی گواہی ہے۔ ان جوانوں کی قربانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ امن صرف خواہش سے نہیں، قربانی اور حکمت سے حاصل ہوتا ہے۔
وقت آ چکا ہے کہ پاکستان ایک بار پھر دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے متحد ہو۔
