حالیہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک حیران کن دعویٰ شدت سے گردش کرنے لگا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے ایران کے ساتھ 30 ارب ڈالر کی ایک خفیہ مالی ڈیل طے کر لی ہے۔ اس دعوے نے نہ صرف عوامی حلقوں میں ہلچل مچا دی بلکہ سیاسی تجزیہ نگاروں اور بین الاقوامی امور کے ماہرین کو بھی حیرت میں ڈال دیا۔ اس خبر کی نوعیت ایسی تھی کہ بظاہر یہ بریکنگ نیوز کے طور پر دیکھی گئی، یہاں تک کہ بعض معروف یوٹیوب چینلز اور سوشل میڈیا پیجز نے اسے "خفیہ معاہدہ” قرار دے کر متعدد تفصیلات کے ساتھ پیش کیا۔
تاہم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان تمام خبروں کو بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی قرار دیتے ہوئے واضح اور سخت الفاظ میں ان کی تردید کی ہے۔ اپنی سوشل میڈیا ایپ "ٹروتھ سوشل” پر جاری کردہ بیان میں ٹرمپ نے کہا کہ "میں نے ایران کے ساتھ نہ کوئی معاہدہ کیا ہے اور نہ ہی 30 ارب ڈالر دینے کا کوئی ارادہ یا تجویز موجود ہے۔ یہ سراسر جھوٹ ہے، محض جھوٹی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ "میرے دورِ حکومت میں ایران پر سخت ترین معاشی پابندیاں لگائی گئیں اور میں ان پر آج بھی قائم ہوں۔ ایران جیسے ملک کے ساتھ مالی یا سفارتی رعایت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جب تک وہ اپنے رویے اور عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں پر نظرثانی نہ کرے۔”
دوسری جانب، بین الاقوامی تجزیہ نگاروں نے بھی ان خبروں کو حقائق سے کوسوں دور قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ اور ایران کے تعلقات گزشتہ کئی برسوں سے تناؤ کا شکار ہیں، خاص طور پر 2018 میں جب ٹرمپ انتظامیہ نے یک طرفہ طور پر ایران کے ساتھ جوہری معاہدے (JCPOA) سے دستبرداری اختیار کی۔ اس کے بعد ایران پر سخت پابندیاں لگائی گئیں، جن کا اثر آج تک جاری ہے۔
سیاسی و بین الاقوامی امور کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر ایسی کوئی بڑی ڈیل طے پاتی تو امریکی کانگریس اور بین الاقوامی میڈیا میں اس پر واضح بات ہوتی۔ امریکہ جیسے جمہوری ملک میں اتنے بڑے مالی معاہدے کو نہ خفیہ رکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی ایک فرد کے ذریعے طے کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر جب وہ فرد سرکاری عہدے پر بھی نہ ہو۔
ایران کی جانب سے بھی اس حوالے سے کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا، جو ان دعوؤں کی صداقت پر مزید سوالات کھڑے کرتا ہے۔ اگر واقعی امریکہ ایران کو 30 ارب ڈالر دے رہا ہوتا، تو یہ ایرانی میڈیا اور سرکاری ترجمانوں کے لیے ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا جاتا، لیکن ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آیا۔
سوشل میڈیا پر یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا تھا کہ یہ ڈیل بائیڈن حکومت کی پالیسیوں کا تسلسل ہے، اور اس میں ٹرمپ کی رضامندی شامل ہے تاکہ اگلے انتخابات میں ایران کے ساتھ نرمی کی ایک "مثبت شبیہ” پیش کی جا سکے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں ایسی کسی پالیسی کا وجود فی الوقت دکھائی نہیں دیتا جو ایران کے لیے اس قدر مالی نرم رویہ رکھتی ہو۔
ماضی میں بھی متعدد بار ایسی من گھڑت خبریں سوشل میڈیا پر پھیلائی گئیں جن کا مقصد عوامی رائے کو متاثر کرنا، سیاسی دباؤ بنانا یا کسی خاص بیانیے کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ اس لیے ماہرین بارہا عوام کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ خبروں کو سچ ماننے سے پہلے ان کی تصدیق معتبر ذرائع، جیسے کہ بین الاقوامی خبر رساں ادارے، سرکاری بیانات، اور عالمی ماہرین کے تجزیات سے ضرور کریں۔
نتیجتاً، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان 30 ارب ڈالر کی ڈیل کی خبر نہ صرف بے بنیاد ہے بلکہ ممکنہ طور پر کسی خاص ایجنڈے کے تحت پھیلائی گئی افواہ ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی سخت تردید اور بین الاقوامی ذرائع کی خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ہر خبر سچ نہیں ہوتی۔