تحریروترتیب: فضل الرحمٰن کھوکھر
ایران میں اسلامی جمہوریہ کے قیام کو پینتالیس برس گزر چکے ہیں۔ مگر آج 2025 میں، جب ایران براہ راست اسرائیل سے عسکری تصادم میں داخل ہو چکا ہے، مغربی دنیا، خصوصاً اسرائیل اور امریکہ، یہ بیانیہ زور و شور سے دہرا رہے ہیں کہ "ملا راج ختم ہونے کے قریب ہے”۔
یہ ایک محض سیاسی بیان ہے یا اس کے پیچھے زمینی حقائق بھی موجود ہیں؟
آئیے، ایران کے موجودہ سیاسی حالات کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرتے ہیں۔ 1. اسلامی نظام حکومت کی ساخت: آیا تبدیلی ممکن ہے؟
ایران کا سیاسی نظام ایک انوکھا امتزاج ہے:
* **منتخب صدر اور پارلیمان:** یہ بظاہر عوامی نمائندگی کی علامت ہیں، مگر ان کی طاقت محدود ہے۔ پارلیمان میں منظور شدہ قوانین کو بھی اگر شریعت یا آئین سے متصادم قرار دیا جائے، تو انہیں مسترد کیا جا سکتا ہے۔
* **غیر منتخب ولی فقیہ (سپریم لیڈر):** اصل اختیارات ولی فقیہ کے پاس ہوتے ہیں، جو فوج، عدلیہ، میڈیا، اور پاسدارانِ انقلاب پر مکمل کنٹرول رکھتے ہیں۔ موجودہ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای 1989 سے اس منصب پر فائز ہیں۔
* **پاسدارانِ انقلاب (IRGC):** صرف فوجی ادارہ نہیں بلکہ ایران کی سب سے بڑی معاشی، انٹیلی جنس اور سیاسی قوت۔ تمام بڑی صنعتیں، کنٹریکٹس، اور اسٹریٹیجک فیصلے براہِ راست ان کے ہاتھ میں ہیں۔ یہ ریاست کے اندر ریاست کا کردار ادا کرتے ہیں۔
### 2. عوامی بےچینی اور حالیہ احتجاجی لہر
2022 میں مہسا امینی کی ہلاکت نے جو چنگاری بھڑکائی، وہ غیرمعمولی تھی:
* **خواتین کا احتجاج:** پہلی بار خواتین نے حجاب کو بطور علامتی مزاحمت استعمال کیا، اور عالمی میڈیا پر اپنی آواز پہنچائی۔
* **نوجوان نسل کی بغاوت:** 60 فیصد سے زیادہ آبادی 35 سال سے کم عمر ہے، جو ملا راج، انٹرنیٹ سنسرشپ، اور معاشی بدحالی سے بیزار ہے۔
**سوشل میڈیا کی طاقت:** TikTok، Instagram اور Telegram جیسے پلیٹ فارمز پر ویڈیوز نے ایرانی حکومت کی سختیوں کو بے نقاب کیا۔
اگرچہ حکومت نے احتجاج کو سختی سے کچل دیا، لیکن یہ واضح ہو گیا کہ نئی نسل اب ماضی کی طرح خاموش نہیں 3. اسرائیلی و امریکی دعوے: حقیقت یا پروپیگنڈہ؟
* **نفسیاتی جنگ:** اسرائیل کے بیان کہ "ایران کا نظام گرنے والا ہے”، کا مقصد ایرانی عوام کو حکومت سے بدظن کرنا اور بین الاقوامی حمایت حاصل کرنا ہے۔
* **CIA رپورٹس:** بعض خفیہ رپورٹس میں داخلی تقسیم، سپاہ پاسداران میں نظریاتی بیزاری، اور معاشی دباؤ کا ذکر ہے، مگر یہ اندرونی احتجاج کو بغاوت تک پہنچا دینے کے قابل نہیں۔
* **معلوماتی جنگ:** سوشل میڈیا اور سیٹلائٹ چینلز کے ذریعے بیرونی طاقتیں ایرانی نظام کو غیر مستحکم کرنے کی مہم پر کاربند ہیں۔ تاہم ایرانی اسٹیبلشمنٹ ان کوششوں سے آگاہ اور تیار ہے۔
4. ملا راج کا مکمل خاتمہ؟ یا فقط نظام میں نرمی؟
* **ولی فقیہ کی موت:** اگر آیت اللہ خامنہ ای کا انتقال ہوتا ہے تو جانشینی کا عمل ممکنہ طور پر شدید اندرونی کشمکش کا شکار ہوگا۔ یہ لمحہ تبدیلی کا آغاز بن سکتا ہے۔
* **IRGC کی اندرونی بغاوت:** اگر پاسدارانِ انقلاب کی صفوں میں تقسیم ہوتی ہے یا وہ خود کو حکومت سے علیحدہ کرتے ہیں، تو نظام لڑکھڑا سکتا ہے۔
* **اصلاح پسند مذہبی قیادت:** کچھ حلقے چاہتے ہیں کہ مذہبی نظام برقرار رہے مگر اس میں جمہوری نرمی اور شخصی آزادی کو وسعت دی جائے۔
* **جدید ایرانی نوجوان:** وہ نہ مذہب کے خلاف ہیں، نہ مادرپدر آزاد؛ مگر وہ اپنے فیصلوں میں آزادی، ٹیکنالوجی، اظہارِ رائے اور معاشی خوشحالی چاہتے ہیں۔
5. نتیجہ: انقلاب کی گھنٹی یا محض خواہش؟
ایران کی موجودہ حکومت کو شدید چیلنجز کا سامنا ضرور ہے:
**اندرونی احتجاج:** اگرچہ فی الحال منتشر اور قیادت سے خالی ہیں، مگر بڑھتے دباؤ کے ساتھ منظم ہو سکتے ہیں۔
**عالمی تنہائی:** امریکہ، اسرائیل اور یورپ کی جانب سے مسلسل پابندیاں ایران کو داخلی خودکفالت کی طرف دھکیل رہی ہیں، مگر یہ تنہائی نوجوان نسل میں مزید بےچینی پیدا کر رہی ہے۔
**معاشی دباؤ:** ایرانی ریال کی گرتی ہوئی قدر، بے روزگاری، کرپشن، اور مہنگائی نے متوسط طبقے کو بھی حکومت سے دور کر دیا ہے۔
*جنگی اخراجات:* اسرائیل سے جنگ میں ایندھن، میزائل، پراکسیز کی مدد — سب کچھ معیشت پر بوجھ بن رہا ہے۔
ایران میں حکومت کی تبدیلی کا شور زیادہ ہے، حقیقت کم۔ عوام ناراض ہیں، مگر خوف زدہ بھی۔
ریاستی مشینری مضبوط ہے، مگر وقت کے ساتھ دباؤ بڑھ رہا ہے۔
مکمل انقلاب کا امکان کم، لیکن تدریجی تبدیلی، سماجی نرمی، اور نئی نسل کی سوچ آنے والے برسوں میں نظام کو جھنجھوڑ سکتی ہے۔