سوات، پاکستان – نمائندہ خصوصی سے
پاکستان کے دلکش وادی سوات میں حالیہ سیلاب نے ایک اور خاندان کی زندگی اجاڑ دی، مگر اس المیہ سے زیادہ دردناک حقیقت یہ ہے کہ یہ سانحہ قدرت کی بے رحم موجوں سے نہیں، بلکہ انسانی غفلت، ناقص منصوبہ بندی اور حکومتی نااہلی سے جنم لیتا دکھائی دیتا ہے۔
ذرائع کے مطابق ایک پورا خاندان، جو سیر و تفریح کے لیے سوات کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے آیا تھا، دریا کی بے رحم موجوں کی نذر ہو گیا۔ دل دہلا دینے والی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں، جہاں لاشیں پانی میں بہتی نظر آتی ہیں اور ریسکیو عملہ تاخیر سے موقع پر پہنچتا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق، محکمہ موسمیات کی بروقت وارننگ کے باوجود ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو ادارے موقع پر موجود نہ تھے، اور کوئی بھی پیشگی اطلاع، انتباہی سائن بورڈ یا حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے۔
یہ کوئی قدرتی حادثہ نہیں تھا۔ یہ ایک روکنے کے قابل سانحہ تھا۔
ہر سال مون سون کی بارشوں سے پاکستان بھر میں تباہی مچتی ہے، ہر سال حکمران بیانات، دعوے اور تصویری دورے کرتے ہیں، اور ہر سال عوام لاشیں دفناتے ہیں۔ سوات کا حالیہ سانحہ اس پورے نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ جب محکمہ موسمیات وارننگ دیتا ہے، تو ضلعی انتظامیہ کیوں خاموش رہتی ہے؟ جب ماضی میں سیلاب تباہی لا چکے ہیں، تو ان سے سبق کیوں نہیں لیا گیا؟
دلچسپ امر یہ ہے کہ جن سیاسی جماعتوں نے خیبر پختونخواہ پر تقریباً 12 برس حکومت کی، ان کے پاس سوشل میڈیا مہمات کے لیے تو ٹیمیں ہیں، مگر قدرتی آفات سے نمٹنے کا کوئی واضح منصوبہ، تربیت یافتہ عملہ یا موثر حکمت عملی نہیں۔ ان کی ترجیح احتجاجی دھرنے، تقاریر اور سیاسی اسکورنگ رہ گئی ہے، جب کہ عوام کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں۔
یہ سانحہ ہمیں آئینہ دکھاتا ہے کہ ہماری ریاستی مشینری کی ترجیحات کیا ہیں۔ وزیروں کے پروٹوکول پر وسائل جھونک دیے جاتے ہیں، مگر ریسکیو 1122 کو ضروری آلات اور عملے کی فراہمی نہیں کی جاتی۔ پولیس، مقامی انتظامیہ اور دیگر ادارے صرف کاغذی رپورٹس بنانے میں مہارت رکھتے ہیں، زمین پر موجودگی اور بروقت کارروائی کہیں نظر نہیں آتی۔
کیا ان لاشوں پر بھی سیاست ہوگی؟ کیا عوام کی جان کی کوئی قیمت نہیں؟
ہمیں بطور قوم یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ غفلت بھی جرم ہے۔ ہمیں سوال اٹھانے ہوں گے، احتجاج کرنا ہوگا، اور ہر اُس فرد کو کٹہرے میں لانا ہوگا جو اپنی نااہلی سے معصوم جانوں کے زیاں کا ذمہ دار ہے۔
اگر وارننگ بورڈ نصب ہوتے، اگر اہلکار خطرناک علاقوں پر مامور ہوتے، اگر ریسکیو ٹیمیں پہلے سے مستعد ہوتیں — تو شاید آج یہ خبر افسوس کی نہیں بلکہ فخر کی ہوتی۔
یہ صرف سوات کا سانحہ نہیں —
یہ ہماری ریاست، ہمارے نظام، اور ہماری اجتماعی بے حسی کا نوحہ ہے۔