ملائیشیا کے حکام نے ایک ایسے نیٹ ورک کا خاتمہ کر دیا ہے جو ملک میں کام کرنے والے بنگلہ دیشی شہریوں کے درمیان داعش کے لیے فنڈ جمع کرنے اور نظریات کی ترویج کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرتا تھا، ملک کے اعلیٰ پولیس اہلکار نے یہ بات جمعہ کو کہی۔
دارالحکومت کوالالمپور میں 2016 کے ایک حملے کے بعد مسلم اکثریتی ملائیشیا نے مشتبہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کے الزام میں سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا ہے حالانکہ حالیہ برسوں میں علاقائی کریک ڈاؤن کے بعد گرفتاریوں میں بہت حد تک کمی آئی ہے۔ اس حملے کا تعلق داعش سے تھا۔
کارخانوں، شجرکاری اور تعمیراتی کام کرنے کے لیے ملائیشیا غیر ملکی مزدوروں پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے جہاں ہر سال ہزاروں بنگلہ دیشی شہری کام کے لیے منتقل ہوتے ہیں۔
ایک ٹیلی ویژن پریس کانفرنس میں انسپکٹر جنرل پولیس محمد خالد اسماعیل نے کہا کہ حکام نے اپریل سے لے کر اب تک متعدد کارروائیوں میں 36 بنگلہ دیشی شہریوں کو حراست میں لیا ہے اور یہ تمام افراد ملائیشیا میں کارخانوں یا تعمیرات اور خدمات جیسے شعبوں میں کام کرنے آئے تھے۔
محمد خالد نے پولیس کی انٹیلی جنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نیٹ ورک نے دیگر بنگلہ دیشی کارکنان کو نشانہ بنا کر اراکین کو بھرتی کیا اور سوشل میڈیا اور آن لائن پیغام رسانی کے پلیٹ فارم کو بنیاد پرست اور انتہا پسندانہ نظریات کی ترویج کے لیے استعمال کیا۔
دہشت گرد گروہ نے بین الاقوامی فنڈ ٹرانسفر سروسز اور ای-والیٹس کا استعمال کرتے ہوئے شام اور بنگلہ دیش میں بھیجنے کے لیے فنڈز بھی جمع کیے۔ تاہم انہوں نے جمع کردہ رقم کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔
زیرِ حراست افراد میں سے پانچ پر دہشت گرد تنظیم کا حصہ ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے جبکہ 15 کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔ محمد خالد نے کہا کہ مزید 16 افراد تفتیش کے لیے پولیس کی تحویل میں ہیں اور مزید گرفتاریوں کی توقع ہے۔
انہوں نے کہا، اس نیٹ ورک میں کل 100 سے 150 کے درمیان افراد کے ملوث ہونے کا شبہ ہے۔
انہوں نے کہا، "ہم کم از کم سرگرمیوں میں ملوث افراد کو ان کے آبائی ملک واپس بھیج دیں گے جبکہ زیادہ سرگرمیوں میں ملوث افراد پر ملائیشیا کے قوانین کے تحت الزام عائد کیا جائے گا۔”