یورپی ممالک جن میں جرمنی سر فہرست ہے کے درمیان بارڈر کنٹرول سسٹم دوبارہ شروع کرنے کے بہتر نتائج سامنے انے لگے ہیں ۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق یکم جنوری سے تیس جون تک یورپی یونین ممالک بشمول سوئٹزلینڈ اور ناروے چار لاکھ لوگوں نے اسائلم کی درخواست دی ہے ۔ جو گذشتہ سال کی نسبت ۲۳فیصد کم ہے ۔ ان میں بڑی تعداد Venezuelen , افغانستان اور ملک شام کے شہریوں کی ہے ۔جہاں سے بالترتیب پچاس ہزار ، اکتالیس ہزار اور تیس ہزار افراد یورپی ممالک میں داخل ہونے میں کامیاب ہوے ۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جاے تو
سپین 020 76
فرانس 428 75
جرمنی 495 65
اٹلی 534 62
یونان 718 27
بلجیم 000 17
جرمنی میں جو لوگ مہاجر بن کر ملک میں داخل ہونے میں کامیاب ہوے ان میں 22 فیصد افغان ، 20 فیصد شام کے لوگ ، 11 فیصد ترکی کی شہریت کے حامل افراد ہیں ۔ اس طرح جرمنی انے والے لوگوں کی اکثریت کا تعلق مسلمان ممالک سے ہے ۔
گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران جرمنی میں چاقو سے وار کرنے یا انسانی جانوں پر جان لیوا حملہ کرنے میں جو افراد ملوث پاۓ گئے ان کی اکثریت مسلمان مہاجروں کی تھی ۔ ابھی دو روز قبل ڈنمارک کے شہر کوپن ھیگن سے آسٹریا کے دار الحکومت ویانہ جانے والی ٹرین میں کلہاڑی کے وار چلانے والے خاندان بھی افغان شہری تھا ۔ مسلمان ممالک سے انے والے مہاجرین کا طرز زندگی جرمنوں اور خصوصا سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کو کھل کر مہاجرین کی محالفت کرنے کا سامان مہیا کر رہا ہے ۔ جرمنی ، سوئزرلینڈ اور آسٹریا میں بعض اوپن سوئمنگ پولز پر مسلمان نوجوانوں کے داخلہ پر پابندی لگانا پڑی اور جب حالات کنٹرول سے باہر ہونے لگے تو انتظامیہ نے پناہ گزینوں کے پولز میں داخلہ پر پابندی لگا دی ۔ اس سے پہلے بچیوں کے سکولوں کے باہر مہاجر نوجوانوں کی نازیبا حرکات کا نوٹس انتظامیہ کو لینا پڑا اور والدین کو بھی محتاط رہنے کے خطوط سکول انتظامیہ نے جاری کئے ۔
پریشان حال مہاجر مسلمان جن کو تیل کی دولت سے مالا مال امیر مسلمان ممالک نے اپنے ہاں پناہ نہی دی اوران پر یورپ کی عیسائی حکومتوں نے رحم کھایا ہے تو وہاں بگاڑ پیدا کرنے کی بجاے قانون کی پاسداری کرتے ہوے امن و سکون سے رہیں ۔ اپنے گروہی اور خاندانی اختلافات کو سڑکوں پر حل نہ کریں ۔ ایسی حرکات سے اجتناب برتیں جس سے افراد معاشرہ کی انگلیاں آپ کی طرف اٹھنے لگیں اور سیاسی جماعتیں ووٹ حاصل کرنے کے لئے آپ کو نشانہ بنانا شروع کر دیں ۔ مہاجرین کے ان طبقات کو اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے جو آجکل جرمن پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر موضوع بحث بن کر پر امن اور معاشرہ کے لئے مفید مہاجروں کے لئے بھی مشکلات کا باعث بن رہے ہیں ۔
عرفان احمد خان