ملازمتوں پر مصنوعی ذہانت کے اثرات کے بارے میں انتباہات اب محض قیاس آرائیاں یا خیالی منظرنامے نہیں ہیں۔ مصنوعی ذہانت بڑی کمپنیوں کے سینئر ایگزیکٹوز کے ذریعہ جاری کردہ سرکاری بیانات بن گئی ہے۔ یہ اس بات کی تصدیق کر رہی ہے کہ ملازمت کے خاتمے کا دور شروع ہو چکا ہے۔ مصنوعی ذہانت نہ صرف دہرائے جانے والے یا دستی کام کی جگہ لے لے گی بلکہ اب یہ کمپنیوں کے دل وائٹ کالر ملازمین کو نشانہ بنا رہی ہے۔
ایک انتہائی دلیرانہ بیان میں فورڈ کے سی ای او جم فارلی نے کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت امریکہ میں سفید کالر کارکنوں میں سے نصف کی جگہ لے لے گی۔ اس سے اس کی مراد وہ لوگ تھے جو دفتری یا دانشورانہ ملازمتیں رکھتے ہیں۔ ان میں مالیاتی تجزیہ کار، انتظامی معاون، ایڈیٹر، اکاؤنٹنٹ اور دوسرے پیشوں کے ایسے افراد شامل ہو سکتے ہیں جن کو اپنے کاموں میں سوچنےکی ضرورت ہوتی ہے۔
صرف فورڈ کے سی ای او جم فارل نہیں بلکہ جے پی مارگن چیز کے ماریانے لیک نے بھی خبردار کیا کہ اے آئی ٹولز اب انسانوں سے زیادہ تیزی اور درستی کے ساتھ کام انجام دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے دیو ہیکل بینک آنے والے سالوں میں اپنے آپریشنل عملے میں 10 فیصد تک کمی کر سکتا ہے۔ ایمازون کے سی ای او نے اعلان کیا ہے کہ اے آئی پر اس کے بڑھتے ہوئے انحصار کا مطلب یہ ہوگا کہ اسے مستقبل میں کم ملازمین کی ضرورت ہوگی کیونکہ ذہین نظام اب ایسے پیچیدہ کام انجام دینے کے قابل ہیں جن کے لیے پہلے ملازمین کی پوری ٹیموں کی ضرورت تھی۔
شاید سب سے سنگین وارننگ مصنوعی ذہانت میں مہارت رکھنے والی کمپنی اینتھروپک کے سی ای او ڈاریو آمودی کی طرف سے آئی ہے۔ انہوں نے صورتحال کو "تباہ کن” قرار دیتے ہوئے پیش گوئی کی ہے کہ امریکہ میں داخلے کی سطح کی تمام ملازمتوں میں سے نصف صرف پانچ سالوں میں ختم ہو جائیں گی۔ یہ صورتحال ممکنہ طور پر بے روزگاری کی شرح کو 20 فیصد تک دھکیل دے گی۔ بے روزگاری کی یہ شرح کئی دہائیوں کی ایک غیر معمولی شرح ہوگی۔
کچھ پیش گوئیاں یہ ہیں کہ گزشتہ صنعتی انقلاب آنے وقت کی طرح اے آئی بھی اے آئی نئی ملازمتیں پیدا کرے گی۔ لیکن حیران کن سوال یہ باقی ہے کہ کیا یہ ملازمتیں ان لاکھوں لوگوں کی جگہ لینے کے لیے کافی اور فوری ہوں گی جو اپنی ملازمتوں سے محروم ہو سکتے ہیں؟ اس حوالے سے جواب غیر واضح ہے۔