ازقلم: عرفان خان
روس یوکرائن جنگ کو شروع ہوے اب تین سال ہو چکے ہیں ۔ یو کرائن میں خود تو اتنی طاقت نہی تھی کہ وہ سال ہا سال روس
کا مقابلہ کر سکتا ۔ وہ اب تک اس جنگ کو امریکہ اور یورپین یونین ممالک کے بل بوتے پر لڑ رہا ہے ۔ اس جنگ میں جو اسلحہ یو کرائن نے استعمال کیا وہ زیادہ تر جرمنی کا بنا ہواتھا اور جو اسلحہ امریکہ نے دیا اس کی بڑی ادائیگی میں یورپی یونین ممالک نے ادا کی ہے ۔ وہ ممالک جن کے درمیان جنگ جاری ہو وہ خود تو تباہی سے دوچار ہوتے ہی ہیں لیکن دنیا کے دیگر ممالک بھی جنگ کے اثرات سے متاثر ہوے بغیر نہی رہتے ۔ اس جنگ کے آغاز کے ساتھ دنیا میں مہنگائی کا جو طوفان آیا تھا اس کا زور تھمنے کا نام نہی لے رہا ۔ جرمنی کی حکومت جس نے اسلحہ کی ترسیل ، یوکرائن کے شہریوں کو اپنے ہاں پناہ دینے اور تباہ شدہ یوکرائن کی بحالی میں جرمن عوام کی مرضی کے خلاف جو کردار ادا کیا ہے اس کی قیمت جرمن عوام کو ادا کرنی پڑ رہی ہے ۔ ہر شعبہ زندگی کی قیمتیں عام شہری کی استطاعت سے باہر ہوتی چلی جا رہی ہیں ۔ جنگ میں امداد کی وجہ سے جرمنی کا بجٹ مزید خسارہ میں جا چکا ہے ۔ آجکل جرمن پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس جاری ہے اور پارلیمنٹ میں تقریر کے دوران وزیر خزانہ نے بتایا ہے کہ دنیا کے وہ ممالک جن میں غربت اپنی انتہاہ کو پہنچی ہوئی ہے اور وہاں کے عوام بھوک اور مفلسی کا شکار ہیں جرمن حکومت ان کی امداد میں دو بلین یورو سالانہ کی کمی کر رہی ہے ۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق غریب ممالک میں اجناس کی فراہمی کے لئے مدد کرنے والوں میں جرمنی پہلے نمبر پر ہے ۔ جرمنی کے اس حالیہ فیصلہ پر جرمن این جی اوز نے شدید تنقید کی ہے ۔ save the children نامی تنظیم جس کا مرکزی دفتر برلن میں ہے کے سربراہ نے اپنی پریس کانفرنس وہ تمام تر تفاصیل بیان کی ہیں جو جرمن حکومت کے اس فیصلہ سے متاثر ہوں گی ۔ خصوصا افریقہ کے وہ ممالک جن کے عوام اور وہاں پیدا ہونے والے بچوں کی زندگی کا دارومدار جرمن حکومت ، جرمن عوام اور جرمن چرچ ارگنائزیشن کی طرف سے ملنے والی امداد پر ہے ۔ وہ جرمن حکومت کے حالیہ فیصلہ سے شدید متاثر ہوں گے ۔ صرف save the children ہی نہی بلکہ متعدد این جی اوز اور چرچ ارگنائزیشن نے عوام اور میڈیا سے حکومت کی طرف سے دو بلین یورو امداد میں کمی کا فیصلہ واپس لینے کی اپیل کی ہے ۔ وائس آف جرمنی بھی اس احتجاج میں شامل ہوتے ہوے جرمن حکومت سے اپیل کرتا ہے کہ یوکرائن جنگ پر اٹھنے والے اخراجات بند کر کے امن اور صلح کا راستہ تلاش کیا جاے اور بھوک اور افلاس کے فنڈ میں دو بلین یورو کی کمی کا فیصلہ واپس لیا جاے ۔
دیگ باٹنے پر احمدی کے خلاف مقدمہ
پاکستان میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں اب روز کے معمولات کا حصہ بنتی جا رہی ہیں ۔ ایک شہری کے کیا حقوق ہیں ۔
انسان کس حد تک اپنی ذاتی زندگی میں ازاد ہے ۔ اس کا تصور محال ہوتا جا رہا ہے ۔ ہر کوئی دوسرے کے لئے اپنا فیصلہ صادر کرنا
اپنا حق سمجھنے لگا ہے ۔ قانون کے رکھوالے اور قانون نافذ کرنے والے قانون کی ایسی تشریح کرتے ہیں جس سے معاشرہ کے شرپسند لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔پاکستان میں محرم کے مہینہ میں اہل معاشرہ کی طرف سے پانی ،شربت کی سبیلیں لگانا اور کھانا تقسیم کرنا معمول کی بات ہے اور اس کو نیک اقدام گردانا جانتا ہے ۔ اس نیک کام کو بعض شرپسند لوگ فساد کے لئے استعمال کرتے ہیں اور حکومتی کارندے ان کے آلہ کار بن جاتے ہیں ۔ 6 جولائی کو تھانہ سیٹلائٹ ٹاؤن گوجرانوالہ میں ایک ایف آئی آر 1721/15 ایک احمدی کے خلاف کاٹی گئی ہے کہ اس نے محرم کے ایام میں بریانی کی دیگ تقسیم کی ہے ۔ دیگ تقسیم کرنا اسلامی شعار ہے اس طرح اس نے اپنے اپ کو مسلمان ظاہر کیا ہے ( شخص کا نام احتیاطا نہی لکھا جا رہا ) آفرین ہے علاقہ کے اے ایس آئی جناب شوکت علی پر جنہوں نے بریانی کی تقسیم کو بھی اسلامی بنا دیا ۔ پاکستان کے بازاروں میں اسلامی شہد تو بکتا دیکھا ہے اب چاول اور مرغی کو بھی اسلامی قبا پہنا دی جاے گی ۔ معاشرہ کو جہالت کی اس سطح پر لے جانے والی انتظامیہ اور سیاست دان جب ان کے اوپر ذرا ساری تکلیف کیا ان کی طبیعت کے خلاف بات ہو جاے تو یہ اس طرح آگ بگولا ہو جاتے ہیں کہ بس چلے تو ہرچیز تہس نہس کر دیں ۔ جبکہ اپنے ہی شہریوں کے خلاف ظلم وزیادتی پر ان کی زبانیں کنگ رہتی ہیں ۔
آج ہی پنجاب اسمبلی کے سپیکر ملک محمد احمد خان پر جب بات آئی تو آئین کو لپیٹنے کی بات پر اتر اے ۔ آج فلور دی ہاوس فرمایا
میں آئین کی دفعہ 62-63 کا مخالف ہوں ۔چاہیں تو ان کو آئین سے نکال کر پھینک دیں ۔ 35 سال سے جاری غنڈہ گردی کو بریک لگنی چائیے ۔ بحثیت پاکستانی شہری ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا لوگوں کے فرجوں سے قربانی گوشت زبردستی نکال کر لے جانا ۔گھر کے صحن میں بندھے بکرے کھول کر لے جانا ، بریانی کی تقسیم کو رکوا دینا ۔کیا یہ غنڈہ گردی نہی۔ اس غنڈہ گردی پر اگر آپ اسمبلی میں خاموش رہے تو اب آئین کی شق 62-63 پر واویلا کرنا بے معنی ہے ۔