کل بدھ کے روز جرمنی کی نیشنل اسمبلی Bundestag کی کاروائی امسال کے قومی بجٹ میں موجود اخراجات کے جائزہ کے لئے مخصوص تھی ۔ سپیکر نے قائد حزب اختلاف کو پہلے تقریر کرنے کی دعوت دی ۔ اس وقت جرمنی میں غیر ملکیوں کی مخالف جماعت جرمنی کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی ہے ۔ چنانچہ AFD کی خاتون لیڈر Alice Weidel نے مائیک سنبھالتے ہی غیر ملکیوں پرُ اٹھانے والے اخراجات کا رونا شروع کر دیا اور دوران تقریر ایسے الفاظ بھی ان کی زبان پر اے جن کو ادا کرنا کسی طور مہذب سوسائٹی کی لیڈر شپ کو زیب نہی دیتا ۔ بقول Alice Weidel کے ایمگرنٹس کی طرف سے ریپ اور چاقو سے حملہ کرنے کے واقعات اب جرمنی میں معمول کی زندگی کا حصہ بن گئے ہیں ۔ ہم ان کو گھر بیٹھے رقوم مہیا کر رہے ہیں ۔ ویلفیئر اسٹیٹ ہونے کا ہر گز یہ مطلب نہی ۔ سوشل امداد پر ان لوگوں کا کوئی حق نہی ۔ AFD کی اس محترم لیڈر نے اپنی تقریر میں اعدادوشمار بھی پیش کئے ( جو غلط ثابت ہوۓ ) اس سے پہلے قومی اسمبلی میں اسی سیاسی پارٹی کے تین ممبران Andreas, Michael, Thomas مختلف مواقع پر Burgergeld سوشل امداد پر اپنی منفی راے کا اظہار کر چکے ہیں ۔ عوامی راے میں قائد حزب اختلاف کی غیر ملکیوں کے بارے کی جانے والی تقریر میں ان کا رویہ ،الفاظ کا چناو اور پیش کئے جانے والے اعدادوشمار درست نہ تھے ۔ جرمن چانسلر ایوان موجود تھے اور اس تقریر کا جواب دیتے وقت ایسے محسوس ہوا کہ ان کی تیاری مکمل نہ تھی یا پھر چانسلر نے حقائق بتانے سے گریز کیا ۔ جرمن چانسلر کا تعلق بھی غیر ملکی مخالف قدامت پسند سیاسی جماعت ہے ۔ وقت کی ضرورت نے ان کو سوشلسٹ پس منظر رکھنے والی جماعت سے اتحاد پر مجبور کر رکھا ہے ۔ چانسلر نے حکومتی پالیسی کا دفاع کا دفاع کرنے کی بجاے ایوان میں اعلان کیا کہ ہم بتدریج ایمگرنٹس کی تعداد ملک میں کم کرنے کی کوششوں میں لگے ہوے ہیں ۔ جس کے جواب میں Alice Weidel نے جھوٹے چانسلر Lügen Kanzler کی آواز بلند کی ۔
شام کو سب ٹی وی چینل پر متفق تھے کہ چانسلر نے اعدادو شمار کی بجاے سیاسی جواب دے کر میڈیا کی مدد کی ہے جو ہر وقت ایسی خبر کی تلاش میں رہتا ہے جس کی شہ سرخی لگائی جا سکے ۔ جرمن چانسلر کا جواب حزب اختلاف سے زیادہ پاورفل ہونا چائیے تھا جبکہ Alice. Weidel کی طرف سے پیش کئے جانے والے اعدادوشمار درست نہی تھے ۔ Weidel نے ایمگرنٹ پر خرچ ہونے والی سالانہ رقم 5,8 ٹریلین بیان کی جو درست نہی ۔ جرمن حکومت کے اکنامک ایڈوائزر جو Ruhr یونیورسٹی بوخم میں کل وقتی پروفیسر بھی ہیں Martin Werding نے یہ رقم ایک سو بلین بیان کی ہے ۔ دنیا کی ہر ویلفیئر اسٹیٹ میں ایسی رقم بجٹ کا حصہ ہوتی ہے ۔جرمنی کوئی دنیا کا واحد ملک نہی ہے ۔ حکومت کا متعلقہ ادارہ بتا رہا ہے کہ حکومت ہر سال تیس بلین خرچ کرتی ہے ۔ 2015 کے بعد انے والے غیر ملکیوں میں سے 75 فیصد ملازمتیں تلاش کر کے حکومت کوٹیکس ادا کر رہے ہیں ۔ جرمنی کا ہر پانچواں شہری ایمگرنٹ بیک گراونڈ سے تعلق رکھتا ہے اور ٹیکس نظام ان کے دم سے چل رہا ہے ۔ جرمن مارکیٹ میں ہائی کولیفائڈ ایمگرنٹس کی تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے ۔ فیڈرل ائمپلامنٹ ایجنسی کے ریکارڈ کے مطابق سوشل انشورنس کا نظام 2024 میں غیر ملکی ورکرز کی بدولت بنک کرپسی سے بچ گیا ۔ جرمنی کی سیاست میں ایمگرنٹس ہر وقت موضوع بحث رہتے ہیں اور ان کے حوالے سے منفی اور اکثر اوقات غلط معلومات مہیا کی جاتی ہیں ۔ جرمنی کے ویلفیئر اسٹیٹ ہونے کا ذکر صرف یہاں رہنے والے غیر ملکیوں کے حوالہ سے کیا جاتا ہے جبکہ اس سے فائدہ اٹھانے والوں میں جرمنوں کی تعداد کچھ کم نہی ہے –
ایک طرف جرمن حکومت سالانہ دو لاکھ ماہرین کی تلاش میں غیرممالک میں ورکر کی تلاش میں سنٹر قائم کر رہی ہے اور دوسری طرف جرمن سیاست دان ائمگرینٹس کے بارے میں اپنی منفی راے کا اظہار اسمبلی کے فلور پر کرنے سے بھی نہی چونکتے ۔
جرمنی کے موجودہ ماحول کو دوستانہ ماحول میں بدلنے کی اشد ضرورت ہے ۔ جرم صرف غیر ملکی ہی نہی کرتے بلکہ جرمن نوجوانوں میں جرائم کی شرح میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس کی بدولت بچوں میں کرائم سے متعلق ایک بل قومی اسمبلی میں زیر غور ہے ۔