
ایک فرانسیسی دوشیزہ، جس نے اسلام قبول کیا اور اعلانیہ تشیع اختیار کر لیا۔
اس نے ایرانی انقلاب کی تعریف کی، ولایتِ فقیہ کی حمایت کی،
یہاں تک کہ اس کے مضامین ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کی ویب سائٹ پر شائع ہونے لگے۔
لیکن یہ سب محض نقاب تھے
درحقیقت، اس کے پیچھے موساد کی آنکھیں چھپی تھیں،
جو ایرانی نظام کے اندر سے ہر چیز کو دیکھ رہی تھیں۔
کیتھرین کسی عام جاسوس کی طرح ایران میں داخل نہیں ہوئی،
بلکہ وہ ایک لکھاری، صحافی اور مفکر کے طور پر سامنے آئی۔
اس نے سیاستدانوں سے ملاقاتیں کیں، پاسدارانِ انقلاب کے ساتھ بیٹھکیں جمائیں،
ابراہیم رئیسی سے ملی،
اور “صحافتی تحقیق” کے پردے میں حساس علاقوں کا دورہ کیا وہ ایرانی اعلیٰ حکام، فوجی افسران اور سائنسدانوں کی بیویوں کے قریب ہوئی،ان سے قریبی تعلقات بنائے،
ان کا دل جیتا یہاں تک کہ وہ اسے اپنی جیسی ایک “بہن” سمجھنے لگیں۔پھر وہ اپنے شوہروں کی ذاتی زندگی، رہائش، سفر، سیکیورٹی اور روزمرہ کے معمولات تک کی باتیں اس سے بے دھڑک کرنے لگیں۔
اسرائیلی اخبار ” ٹائمز آف اسرائیل” کے مطابق کیتھرین نے انکشاف کیا کہ اس نے جنسی تعلقات قائم کرنے کا لالچ دے کر 100 ایرانی ذمہ داران کو اپنے جال میں پھنسایا۔ کیتھرین نے واضح کیا کہ ایرانی مذہبی شخصیات جن کو اس نے “ملّاؤںّ” کا نام دیا ، معلومات کا اہم ترین ذریعہ ہیں۔ ان میں اکثریت ایران میں اہم حکومتی منصبوں پر فائز ہیں۔
کیتھرین کے مطابق اس نے مذہب کے بارے میں مزید جاننے کی خواہش ظاہر کر کے ایرانی حکومت میں شامل مذہبی شخصیات سے رابطوں کی راہ ہموار کی۔ وہ ان شخصیات کو عارضی شادی کی پیش کش بھی کرتی تھی۔ اس پیش کش اور اعتماد حاصل کر لینے کے بعد یہ شخصیات خلوت میں خود ہی کیتھرین کو مزید معلومات فراہم کر دیا کرتے تھے۔
اسرائیلی خاتون جاسوس نے مثال دیتے ہوئے ایرانی پارلیمنٹ کے ایک رکن کے بارے میں بات کی۔ اس رکن نے “قربت” کی ملاقات میں پارلیمنٹ کے خفیہ اور بند اجلاس میں ہونے والی تمام کارروائی کی معلومات اور اہم ملکی راز کیتھرین کے سامنے گوش گزار دیے۔
کیتھرین نے نا صرف اہم شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کروائی بلکہ اسرائیل کو ایران کے سارے خفیہ راز فراہم کیے اور اپنا مشن پورا کر کے ایران سے فرار ہو گئی۔