اداریہ وائس آف جرمنی
عرفان احمد خان
عالمی سیاست میں دنیا بھر کی نگاہیں یو کرائن اور غزہ کی سرزمین پر لگی ہوئی ہیں اور تاحال یہ بتانا مشکل ہے ان دو مسائل کا منطقی انجام کیا ہو گا ۔البتہ جرمنی کی اندرونی سیاست پر یوکرائن جنگ کے جو اثرات ظاہر ہو رہے ہیں اس میں حکومت کو بجٹ کی تشکیل میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ جس کا نزلہ اپوزیشن کی طرف سے جرمنی میں رہنے والے مہاجرین پر گرایا جا رہا ہے ۔ جرمنی میں رہنے واے مہاجرین کا 85 فیصد کا تعلق مسلمان ممالک سے بتایا جاتا ہے اس لئے اپوزیشن کی طرف سے اٹھائے جانے والے سوالات کے اصل مخاطب ان مسلمان ممالک کے حکمران ہوتے ہیں جہاں سے یہ مہاجرین پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطرہجرت کا سفر اختیار کرتے اور گہرے سمندروں کو عبور کر کے جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ اب تک ہزاروں سفر کے دوران موت کے ہاتھوں لقمہ اجل بھی بن چکے ہیں ۔
جرمنی کی موجودہ حکومت جو دائیں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی سیاسی پارٹیوں کا غیر فطری مجبوری کے اتحاد پر مشتمل ہے نے اتحادی دستاویز پر دستخط کرنے سے قبل تین ماہ مذاکرات کئے تھے اور یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم کوئی نیا ٹیکس نہیں لگائیں گے ۔ حکومت سنبھالتے ہی عالمی سیاست کا نقشہ بدل گیا ۔ ٹرمپ کی حکمرانی میں نیٹو کا رعب اور دبدبہ کمزور پڑ گیا ۔ جرمنی کو اپنی سیکیورٹی کے لئے فوری دس بلین کی رقم دفاعی امور پر خرچ کرنی پڑی ۔ یو کرائن جنگ میں یورپی یونین میں حصہ ادا کر رہا ہے اوپر سے ٹرمپ صاحب نے جرمن
پروڈکٹ پر ڈیوٹی میں اضافہ کر دیا ہے ۔ جرمن سپریم کورٹ نے حکومت کے قرض لینے کی حد مقرر کر دی ہے ۔ حکومت مجبور ہے کہ اخراجات میں کمی اور آمدنی میں اضافہ کرے ۔ جرمنی کے وزیر خزانہ Mr.Lars Klingbeil جن کا تعلق سوشل ڈیموکریٹ سے ہے نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اس خیال کا اظہار کر دیا کہ 2027 کے بجٹ میں تیس بلین یورو کی کمی کا سامنا ہے ۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے زیادہ کمائی کرنے والے اور بڑی بڑی جائدادوں کے مالک صاحب حثیت افراد کے ٹیکس میں اضافہ کر دیا جاے گا ۔ اس ٹی وی انٹرویو کے بعد اپنے اور بیگانے سب وزیر خزانہ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔ ان کو حکومتی وعدہ یاد دلا رہے ہیں کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگے گا اور نہ ہی ٹیکس میں اضافہ ہو گا ۔ اپوزیشن خصوصا غیر ملکیوں کو جرمنی سے باہر نکالنے کے عزم کا ارادہ ظاہر کرنے والی سیاسی جماعت AFD مہاجرین پر خرچ ہونے والی رقم کو نشانہ بنا رہی ہے ۔ غلط اعداد وشمار کا حوالہ دے کر ماحول میں سنسنی پیدا کرنے کاموقع ہاتھ سے جانے نہی دے رہی ۔ چنانچہ وزارت سوشل افئیرز کو درست اعدادوشمار جاری کرنے پڑے ہیں جن کے مطابق 2024 میں 47 بلین یورو سوشل مدد کے فنڈ میں پانچ ملین افراد کو دئیے گئے ۔ ان کا 52,6 فیصد یعنی 24,7 بلین
یورو جرمن شہریوں کو دیا گیا جبکہ 47,4 یعنی 22,2 بلین جرمنی میں مقیم غیر ملکی شہریوں کو دیا گیا ۔ یو کرائن سے انے والوں کو 6,3 بلین یورو جو دئیے گئے وہ اس 47 بلین میں شامل نہیں ۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے شور صرف اس 22 بلین پر ڈالا جا رہا ہے جو غیر ملکیوں کی سوشل مدد پر خرچ ہوے
جن کی اکثریت 85 فیصد کا تعلق مسلمان ممالک سے بتایا جاتا ہے ۔ کونسی نعمت ہے جو خدا نے مسلمان حکمرانوں کو نہ دے رکھی ہو لیکن ان کی طرف سے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی بدولت ان کے شہری
درد بدر ٹھوکریں کھانے اور اغیار کی صلواتیں سننے پر مجبور ہیں ۔ وہ ممالک جن کے حکمرانوں کا استقبال مسلمان حکمران گھوڑوں کی تاپ سے کرتے اور جن کے قدموں میں رقصایں بال بکھیرتی ہیں ان ممالک میں مسلمان مہاجر کس طعنہ زنی کے سایہ تلے زندگی بسر کر رہے ہیں کاش مسلمان حکمرانوں میں اس کا احساس پیدا ہو اور وہ خدا کی طرف سے ملنے والی دولت سے ایسا صنعتی انقلاب لائیں کہ ان کے شہریوں کو اپنے گھر میں روزگار مہیا ہو اور سات سمندر پار جاکر اغیار کی باتیں نہ سننی پڑیں ۔