!اپنے بینچ خود بنائیں

WhatsApp Image 2025 11 22 at 01.02.38

’مجھے حکومت کے تمام محکمہ جات، یونیورسٹیز اور دیگر سرکاری اداروں میں نئے مالی سال میں فرنیچر کی مد میں رکھے گئے بجٹ کی تفصیلات درکار ہیں۔‘ سنتیس سالہ نوجوان صدر مملکت برکینا فاسو ابراہیم تراورے  نےاپنے سیکریٹری کو حکم  دیا۔ حسب ہدایت ساری تفصیلات حاضر کردی گئیں۔ صدر نے سب کا جائزہ لیا اور دیکھا کہ  فرنیچر کی مد میں کئی ارب فرانک سیفا کا بجٹ رکھا گیا ہے اور یہ سب فرنیچر درآمد کیا جائے گا۔ صدر نے ساری تفصیلات کا بغور مطالعہ کرنےکے بعد دو آپشن محکمہ جات کے سربراہان  کے سامنے رکھے یا تو مقامی ویلڈرز، ترکھانوں اور کاریگروں سے ضرورت کا فرنیچر بنوائیں یا پھر جنگل میں نکل جائیں  وہاں سے لکڑی اکھٹی کریں ان کے بینچ بنائیں اور جہاں ضرورت  ہے وہاں استعمال کریں۔لیکن کسی تعلیمی ادارے یا دفتر کے لئے کوئی فرنیچر درآمد نہیں کیا جائے گا۔ جو اربوں فرانک سیفا ملک سے باہر جانے ہیں وہ مقامی کاریگروں کودیں ان کے فن کی حوصلہ افزائی کریں۔اگر شروع میں اچھے معیار کے بنچ نہ بھی بن سکے تو کوئی بات نہیں آہستہ آہستہ بہتری ہو جائے گی۔

صدر نے مزید کہا جب یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں کے طلبہ ان کھردرے بینچوں پر بیٹھیں گے تو وہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ کس طرح اچھے اور آرام دہ بینچ اور کرسیاں ہم خود بنا سکتے ہیں۔

ان گیم چینجر ہدایات نے ساری صورت حال ہی تبدیل کر کے رکھ دی ہے۔ مقامی کاریگروں کو جہاں فرنیچر بنانے اور اپنے ہنر کو عمدہ طور پر پیش کر کے قومی خدمت کا موقع مل رہا ہے وہاں مقامی صنعت کو فروغ، بے روزگاری میں کمی، مقامی کاریگروں کی حوصلہ افزائی، ان کے ہنر کی قدر، اور ان کے گھروں کا چولہا جلنے کے انتظامات کے ساتھ کئی فوائد سامنے آ رہے ہیں۔

ہمارے ہاں بھی بینچ، اپنی مرضی کے بنوائے جاتے ہیں۔
تاہم ان بینچوں کا کام آرام  پہنچانا، سہولت دینا ، ریلیف دینا اور دلانا ہوتا ہے۔ ان بینچوں میں بیٹھنے والوں کی سہولیات میں کمی تو نہیں ہوتی لیکن ان کے سامنے آنے والوں کی نیندیں ضرور حرام ہو جاتی ہیں۔ ایسے متنازع بینچ ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔

صدر ابراہیم تروارے نے تو اپنے بینچ خود بنانے کا حکم دے کر ملک کو ترقی کی ایک اور جہت دکھا نے کے ساتھ ساتھ بیرونی مداخلت  کا خاتمہ کر دیا ہے۔ ایک نسبتا تکلیف دہ دور سے گزر کر سہولت کی طرف سفر کا آغاز کر دیا ہے۔

تاہم ہمارے انصاف کے ایوانوں میں بننے والے بینچ ابھی اس قدر پختہ  ہوتے دکھائی نہیں دیتے کہ ہر قسم کے جھکاؤ کے بغیر  صرف اپنی آئینی و دستوری قد و قامت کے مطابق  ڈٹ کر متلاشیان انصاف کے  درد کا درماں ہو سکیں۔غربا کی سسکتی آہوں کو سن سکیں۔ سڑک پر کچلی ہوئی بیٹیوں کے والدین ’’فوری معافی‘‘ دینے کے بجائے ایک بار ان کے لئے کھڑے تو ہو سکیں۔ لیکن وہ جانتے ہیں کہ یہ بینچ کھردرے ، تکلیف دہ  اور ناپختہ ہیں۔ ان کے سامنے پیش  ہو کےاپنی رہے سہے کپڑے تار تار کروانے سے بہتر ہے کہ گھر آئے صاحب کی معافی قبول کر لی جائےاوراپنے درد کے ازالے کے لئے راتوں کو چھپ کر اپنے پیاروں کی یاد میں آنسو بہا کر ان کی قبر کی مٹی سے معافی مانگتے رہیں۔ اور یہ بینچ ڈگری ڈگری کھیل کر پوری نظام عدل کی بنیاد ہلا کر   نہ جانے کب تک اپنی ہستی پر ہی سوالیہ نشان ثبت کرتے رہیں گے؟

متعلقہ پوسٹ