لاہور — پاکستان
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے مالی سال 2023-24 کے لیے جاری کی گئی آڈٹ رپورٹ میں پنجاب کی مقامی حکومتوں میں سنگین مالی بے ضابطگیوں اور بدعنوانیوں کا انکشاف ہوا ہے، جس کے نتیجے میں قومی خزانے کو 300 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق غیر قانونی ادائیگیوں، قواعد و ضوابط کے خلاف بھرتیوں، شفاف ٹینڈرنگ کے اصولوں کی خلاف ورزی اور انتظامی کوتاہیوں کے باعث اربوں روپے کے مالی نقصانات سامنے آئے۔ بدعنوانی کے ایک کیس میں 8 کروڑ 5 لاکھ 19 ہزار روپے کی مالی بے ضابطگی رپورٹ کی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملازمین سے متعلق مالی بے قاعدگیاں 10 مختلف کیسز میں سامنے آئیں، جن میں مجموعی طور پر 6 کروڑ 80 لاکھ 3 ہزار روپے شامل ہیں۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ مالی نقصان خریداری (Procurement) کے شعبے میں ہوا، جہاں مختلف اشیاء کی خریداری سے متعلق 56 کیسز میں 302 ارب 20 کروڑ 2 لاکھ روپے سے زائد کی بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔ رپورٹ میں زائد نرخوں پر خریداری، غیر ضروری اخراجات اور ٹینڈرنگ کے شفاف عمل کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ کمرشل بینکوں کے ساتھ سرکاری اکاؤنٹس کے غیر مؤثر انتظام کے باعث بھی سنگین مالی بے ضابطگیاں سامنے آئیں، جہاں دو کیسز میں 11 کروڑ 84 لاکھ 62 ہزار روپے کی مالی خلاف ورزی رپورٹ کی گئی۔
آڈٹ رپورٹ میں سروس ڈیلیوری سے متعلق مسائل کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 37 کیسز میں 377 ارب 3 کروڑ 45 لاکھ روپے کے نقصانات یا غیر مؤثر اخراجات کی نشاندہی کی گئی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوامی وسائل مؤثر انداز میں استعمال نہیں کیے گئے۔

