سعودی عرب اور پاکستان نے ایک تاریخی اسٹریٹجک دفاعی معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں جس کے تحت یہ طے پایا ہے کہ اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوا تو اسے دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ یہ معاہدہ 17 ستمبر 2025 کو ریاض کے قصرِ الیمامہ میں وزیرِاعظم پاکستان محمد شہباز شریف اور سعودی ولی عہد و وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان طے پایا۔
معاہدے کو خطے میں بڑھتی کشیدگی، خصوصاً اسرائیل کی جانب سے قطر پر حملے کے بعد ایک بڑے دفاعی قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کے توازن کو نئی جہت دے سکتا ہے۔
وزیرِ دفاع پاکستان خواجہ محمد آصف نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان کی نیوکلیئر صلاحیتیں بھی معاہدے کے تحت سعودی عرب کے لیے دستیاب ہوں گی اگر کبھی ضرورت پڑی۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ یہ معاہدہ مکمل طور پر دفاعی نوعیت کا ہے اور کسی جارحانہ اقدام کا حصہ نہیں۔
ماہرین کے مطابق سعودی عرب اس معاہدے کے ذریعے اپنی سلامتی کی پالیسی کو متنوع بنا رہا ہے اور امریکہ پر مکمل انحصار کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسری جانب پاکستان خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے اور سعودی عرب کے ساتھ تاریخی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے خواہاں ہے۔
بھارت نے اس معاہدے پر محتاط ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خطے میں بدلتی ہوئی صورتِ حال پر گہری نظر رکھے گا اور اپنے قومی مفادات کا ہر حال میں تحفظ کرے گا۔
بین الاقوامی مبصرین اسے ایک ایسا معاہدہ قرار دے رہے ہیں جو نہ صرف سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کو نئی سطح پر لے جائے گا بلکہ مشرقِ وسطیٰ کی جغرافیائی و دفاعی سیاست میں بھی نمایاں تبدیلیاں لا سکتا ہے۔