دبئی ایئر شو کی پرسکون فضاء اس وقت لرز اٹھی جب بھارتی فضائیہ کا تیجس لڑاکا طیارہ اپنے شاندار کرتب کے دوران اچانک بلندی کھو بیٹھا، سیدھا زمین کی طرف گرا اور چند لمحوں میں ایک عظیم الجثہ آگ کا گولہ بن کر دھماکے سے پھٹ گیا۔ رن وے کے کنارے اٹھنے والی سیاہ دھوئیں کی دیوار نے پورے شو کو مفلوج کر دیا۔ ایمرجنسی ٹیمیں فوراً موقع پر دوڑیں اور فلائنگ ڈسپلے کو فوری طور پر روک دیا گیا۔ شام تک بھارتی فضائیہ نے پائلٹ کی ہلاکت کی تصدیق کی اور حادثے کی باضابطہ تحقیقات کا اعلان کر دیا۔ اپنے نوعیت کے اس منصوبے کے لیے، جو بھارت کی دفاعی خود انحصاری کا نمایاں نشان تھا، یہ سانحہ ایک شدید دھچکا ثابت ہوا۔
تیجس اس ایئر شو میں ایک خاص مقصد کے ساتھ لایا گیا تھا۔ بھارت یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ اس کا مقامی طور پر تیار کردہ لڑاکا طیارہ اب پوری طرح قابلِ اعتماد، جدید اور برآمد کے قابل پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ ’’میک اِن انڈیا‘‘ دفاعی حکمتِ عملی کے تناظر میں یہ شو اس پروگرام کی عالمی ساکھ کو بڑھانے کا بہترین موقع تھا۔ لیکن حادثے نے توجہ کا رخ الٹا کر دیا اور دنیا کی نظریں اس طیارے کی تاریخ، اس کی تکنیکی مشکلات اور اس کے حفاظتی نظام پر مرکوز ہو گئیں۔
لائٹ کومبیٹ ایئرکرافٹ منصوبے کا آغاز 1980 کی دہائی میں ہوا، جب بھارتی فضائیہ کے پرانے ہو چکے میگ 21 طیارے اپنی آخری عمر میں داخل ہو رہے تھے۔ 1984 میں ایرو ناٹیکل ڈیولپمنٹ ایجنسی قائم کی گئی جس نے ہندustan Aeronautics Limited کے ساتھ مل کر ایک جدید، ہلکا، سپر سونک جنگی طیارہ تیار کرنے کا مشن سنبھالا۔ فلائی بائی وائر کنٹرول، کمپوزٹ اسٹرکچر، ملٹی موڈ ریڈار اور جدید اسلحہ — یہ سب ایک ایسے ملک کے لیے غیر معمولی چیلنج تھا جس نے اس سے پہلے محدود پیمانے پر ہی جنگی طیارے بنائے تھے۔ تاخیر اور مشکلات کے بعد 2001 میں تیجس نے پہلی آزمائشی پرواز کی۔ باقاعدہ آپریشنل منظوری حاصل کرنے میں اسے مزید ایک دہائی لگ گئی۔
2010 کی دہائی کے وسط تک تیجس کی اسکواڈرنز فضائیہ میں شامل ہو چکی تھیں۔ جدید کمپوزٹ میٹریل، امریکی ساختہ F404 انجن اور ہلکے مگر مضبوط ڈیزائن نے اسے بھارت کے مستقبل کے جنگی بیڑے کا اہم حصہ بنا دیا۔ میگ 21 کی ریٹائرمنٹ کے بعد تیجس بھارت کے جنگی نظریے میں مرکزی مقام رکھتا ہے اور سینکڑوں مزید طیاروں کے آرڈر اس کی طویل المدتی اہمیت ظاہر کرتے ہیں۔
طویل عرصے تک تیجس کا حفاظتی ریکارڈ قابلِ ستائش رہا، یہاں تک کہ 2024 میں پہلا حادثہ پیش آیا جسے انجن کے آئل سسٹم کے نقص سے جوڑا گیا۔ اگرچہ مسئلہ حل کیا گیا، لیکن اس پس منظر نے دبئی کے تازہ حادثے پر تجزیے کو مزید حساس بنا دیا ہے۔
حادثے سے چند روز قبل سامنے آنے والی ایک ویڈیو نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ سوشل میڈیا پر جاری اس ویڈیو میں تیجس کے نیچے مسلسل بہتی ہوئی مائع کی دھار دکھائی گئی، جس کے متعلق پاکستانی دفاعی ماہرین اور انجینئرز نے دعویٰ کیا کہ یہ انجن آئل کا رساؤ تھا جو تین دن تک دیکھا گیا۔ بھارتی حکام نے اس دعوے کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ یہ صرف ایئر کنڈیشننگ اور آکسیجن سسٹم کا پانی تھا جو گرم و مرطوب موسم میں جان بوجھ کر خارج کیا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ سیاسی کشیدگی نے اس بحث کو مزید بھڑکا دیا۔
اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر واقعی کوئی تکنیکی تنبیہ موجود تھی تو کیا اسے نظرانداز کیا گیا؟ اس بات کا کوئی مصدقہ ثبوت سامنے نہیں آیا کہ پاکستانی انجینئرز کی طرف سے کوئی رسمی رپورٹ شو منتظمین یا بھارتی افسروں تک پہنچی ہو۔ لیکن ایک ایئر شو میں حصہ لینے والے جنگی طیارے کے نیچے مسلسل بہنے والا کوئی بھی مائع قدرتی طور پر تشویش پیدا کرتا ہے۔ فضائی تاریخ ایسے حادثات سے بھری پڑی ہے جن سے پہلے معمولی اشارے دیکھے گئے تھے۔
حادثے کی ویڈیو میں طیارہ ایک خطرناک زاویے سے نیچے گرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہ منظر مختلف ممکنہ وجوہات کی طرف اشارہ کرتا ہے — انجن کی خرابی، کنٹرول سسٹم میں نقص، پائلٹ کی جسمانی حالت، یا کوئی ساختی مسئلہ۔ حتمی حقیقت صرف تکنیکی تجزیہ ہی سامنے لائے گا، لیکن یہ سوال ناگزیر ہے کہ آیا ابتدائی نشانات کو زیادہ سنجیدگی سے لیا جا سکتا تھا۔
اس حادثے نے بھارت کے دفاعی صنعت کے مستقبل پر بھی سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔ تیجس نہ صرف بھارت کی خود انحصاری کی علامت ہے بلکہ کئی ممالک کو برآمدات کے امکانات بھی اس سے وابستہ ہیں۔ خریدار یقینی طور پر اس بات پر نظر رکھیں گے کہ تحقیقات کتنی شفافیت اور دیانت سے کی جاتی ہیں۔
فی الحال دبئی کے آسمان میں اٹھنے والا وہ ہولناک آگ کا گولہ اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ تیجس کے پروگرام کی ساکھ، خطے میں طاقت کے توازن کی بحث اور بھارت کی دفاعی برآمدات کا مستقبل—سب کچھ اب اس بات پر منحصر ہے کہ تحقیقات کتنی گہرائی سے کی جاتی ہیں اور اس میں کتنی سچائی سامنے لائی جاتی ہے۔

